3 115

افسوس صد افسوس

ہم ایک عرصہ پہلے سے جن الفاظ سے واقف تھے ان کے معنی اس دور میں سمجھ آئیں گے یہ نہ سوچا تھا۔ ترقی معکوس کا اصل مظہر یہ دور ثابت ہوگا، اس کا احساس نہ تھا۔ انحطاط کی مجسم صورت وہ حکومت اور اس حکومت کے دور میں معاشرہ ہوگا جس کیلئے جھولیاں بھر بھر دعائیں کی تھیں، یہ احساس ہی نہ ہوا۔ چند دن پہلے اپنے کالم میں، میں نے اپنے دادا، سید اسد گیلانی کا لکھا ہوا ایک جملہ دہرایا تھا ”ہماری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ ہمارے ملی کردار کا بحران ہے” میں سمجھتی ہوں اس ایک جملے میں ہمارا سارا انحطاط، سارا بگاڑ اور سارا الم چھپا ہوا ہے۔ ہرلحظہ یہ احساس، یہ پریشانی یہ پشیمانی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر ایک نیا اُٹھنے والا قدم، ترقی معکوس کی ایک نئی گہرائی سے ہمیں آشکار کرتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اپنے آج کی بے بسی میں یوں گرفتار ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے قابل ہی نہیں رہے، یہ معاملات انتہائی افسوسناک ہیں۔ اس بات کے دُکھ کی گرفت روز فہم کے جسم کے گرد سخت سے سخت تر ہوتی جاتی ہے۔ انحطاط کے اعلان کا ہر نیا واقعہ دل میں اندھیروں کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ سب سے زیادہ دُکھ دینے والی بات یہ ہے کہ اب دل میں کوئی جذبہ نہیں جاگتا جو کسی اُمید کا ہاتھ تھام کر آج کے آنگن میں لاکھڑا کرے اور وہ اونچی آواز میں کہے کہ فکر نہ کرو، ابھی میں باقی ہوں، موجود ہوں اور میرے دم سے کل کی اُمید بھی باقی ہے۔
جب سے جناب غلام سرور صاحب نے پی آئی اے حادثے کا حال اور ذمہ داری کے حوالے سے حقائق ایوان کے سامنے پیش کئے ہیں میرا دل ایک نئے غم سے دوچار ہوگیا ہے۔ بحیثیت قوم ہم اخلاقی انحطاط کے اندھے کنوئیں میں گرچکے ہیں لیکن پہلے کبھی کبھی احساس کا کوئی شرر لپکتا تھا، کبھی کبھی کوئی اشارہ ملتا تھا کہ شمع احساس جل بھی سکتی ہے لیکن اس رپورٹ نے تو ہر اُمید بجھا دی، ہر پریشانی اور فکر کے ننھے سانپ کو ایک اژدھے میں بدل دیا۔ ہمارا اخلاقی انحطاط مکمل ہوچکا اور اب بہتری کی کوئی اُمید بھی باقی نہیں رہی۔ یہ پتھر اس گڑھے میں گزشتہ ستر سالوں سے گر رہا تھا اور اب اس کے پاتال سے جا ٹکرانے کی آواز آگئی ہے۔ اس طیارے حادثے کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی تکنیکی باریکیوں کے حوالے سے میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔ ہمارے ملک میں اب لوگ کس قدر ایمانداری سے کوئی بھی بات کیا کرتے ہیں اس کے بارے میں کسی تحقیق کی ضرورت نہیں۔ اخلاقی گراوٹ کا ہر پہلو روز روشن کی طرح ہم پر عیاں ہے۔ حکومت وقت کے کہنے پر سرکاری نیم سرکاری اداروں میں کی گئی انکوائریاں اور تحقیقات کس حد تک درست ہوتی ہیں، ان تحقیقات میں کن باتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور کن معاملات کو مدنظر رکھا جاتا ہے ہم سب جانتے ہیں۔ ان تحقیقات کے آغاز سے ہی معلوم تھا کہ بہرحال اس حادثے کا ذمہ دار پائلٹ اور جہاز کے عملے کو ہی ٹھہرایا جائے گا۔ اس انکوائری میں نہ تو پائلٹ، کو پائلٹ اور دیگر عملے سے کوئی سوال کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی وہ اپنے دفاغ میں کسی قسم کا بیان دے سکتے تھے، نہ ہی احتجاج کا خطرہ تھا۔ ان کے گھر والے بھی بھلا تکنیکی معاملات میں کہاں اپنے مظلومین کا دفاع کر سکتے تھے چنانچہ وہی ہوا، حادثے کی ذمہ داری پائلٹ، معاون پائلٹ پر ڈال کر دامن جھاڑ لیا گیا۔ ساتھ ہی ان لوگوں کے حوالے سے بھی انکشاف ہوگیا جو طیارہ اُڑاتے رہے اور کسی امتحان میں کبھی نہ بیٹھے یا ان کی جگہ امتحان بھی اور ہی لوگ دیتے رہے۔ پہلے کبھی پی آئی اے میں نہ کسی قسم کی چھان بین ہوئی اور نہ ہی کوئی احتساب ہوا کہ سارے اندوہناک حقائق سامنے آتے۔ کسی حادثے کا انتظار تھا اور پھر وہ بات جو سالہا سال سے کوئی ڈھونڈ نہ سکا تھا وہ بات چند دنوں کی تحقیقات میں سامنے بھی آگئی اور اب اس حوالے سے سدباب بھی ہوگا۔
ایک سوال تو مسلسل پاکستان میں معاملات اور حادثات کے حوالے سے بار بار کیا جاتا ہے کہ آخر ہم کسی بھی معاملے کی تحقیق اور پھر درستگی کیلئے کسی حادثے کا ہی انتظار کیوں کرتے ہیں۔ کیوں آخر کسی حادثے کے رونما ہونے سے پہلے، سسٹم میں کسی خرابی کی نشاندہی، محض تحقیق کی بنیاد پر نہیں کی جاتی۔ ہمیشہ کوئی حادثہ ہمیں جھنجوڑتا ہے، ہم تحقیق کرتے ہیں، مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے، کچھ لوگوں کی بازپرس اور اکثر ذمہ داری انہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو موجود نہیں ہوتے یا تو وہ خود حادثے کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں یا پھر وہ فیصلہ کرنے والے جن کا احتساب کرنا موجودہ لوگوں کے بس میں نہیں ہوتا، کسی بھی حادثے کے نتیجے میں آج تک میں نے کسی شکار ہونے والے پائلٹ، ڈرائیور یا انجن ڈرائیور کو مظلوم نہیں پایا کہ اس کی بے بسی کی بات ہوتی، اس کے گھر والوں کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر تشفی کی بات ہوتی۔ ہر طیارہ حادثے میں پائلٹ اور عملہ ذمہ دار اور اس نظام کا کیا جس کے بگاڑ کی نشانیاں چھپاتے، ادارے صبح سے شام کرتے ہیں۔ کون کہے گا کہ پائلٹ ذمہ دار نہیں، کسی کو یہ احساس تو کبھی نہ ہوگا کہ ہم اس پائلٹ، معاون پائلٹ کے گھر والوں کو کس بے وجہ شرمندگی کا شکار کر رہے ہیں۔ جناب غلام سرور صاحب کو جو بریفنگ بنا کر دی گئی اس کے تحت وہ ایوان کو بتاتے رہے کہ پائلٹ اور معاون پائلٹ کے ذہن پر کرونا سوار تھا، وہ سارے سفر میں کرونا کی ہی بات کرتے رہے۔
(باقی صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟