2 212

جب خود مجھے کرونا ہوا تب پتہ چلا حقیقت کیا ہے

پچھلے ہفتے تک میں ایک صحافی کے طور پر کرونا سے متعلق صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے تھی اور اس وقت جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں میں خود اس وائرس میں مبتلا ہوں اور ان اعداد وشمار کا حصہ بن گئی ہوں جو کل تک میرے لئے صرف خبر تھے۔ مجھے جب شبہ ہوا کہ مجھے کرونا کا ٹیسٹ کرانا چاہئے تو میری فیملی اور احباب کی رائے ہر طرح کے شکوک وشبہات، وہم اور سازشی مفروضے لیکر آگئی۔ ان آرا نے میرے ذہن میں کئی سوالوں کو جنم دیا۔ اسی طرح جب میرا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا تو اس خبر پر میرے عزیز واقارب کے مشورے اور ردعمل بھی مختلف تھا۔ ساری صورتحال کرونا سے متعلق کم علمی اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ اس تجربے کے تحت اب میں ایک نئے انداز میں ان تمام اقدامات کا تجزیہ کر رہی ہوں جو کرونا سے نمٹنے کیلئے حکومتی اور سماجی سطح پر کئے گئے۔ پاکستان میں کرونا کے مریضوں کی بڑھتی تعداد اور اموات کی شرح میں اضافہ بتا رہا ہے کہ ہم اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ ہمارے پاس کتنے طبی آلات ہیں کتنے ماسک ہیں، یہ سب بہت بعد کی چیزیں ہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ اس وبا کی حقیقت سے مسلسل انکار ہے۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے بیانات ایک دوسرے سے متصادم رہے۔ اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ میرا خاندان مجموعی طور پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے میں کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے گاؤں میں مقیم تھی اور ایک اہم میٹنگ کیلئے ایک دن اسلام آباد آئی۔ میرے خیال میں اس میٹنگ میں ہی میں کرونا وائرس کا شکار ہوئی کیونکہ وہاں پر موجود چند افراد میں بعد میں کرونا کی تصدیق ہوئی۔ اس میٹنگ میں چند لوگ تھے جو سماجی فاصلے کا خیال کر کے بیٹھے تھے۔ کچھ لوگوں نے ماسک پہن رکھے تھے اور باقی ماسک کے بغیر تھے۔ اس میٹنگ کے بعد جب میں واپس اپنے گاؤں گئی تو میری طبیعت ناساز تھی اور میں نے اپنے والدین اور باقی گھر والوں سے درخواست کی کہ آپ سب مجھ سے دور رہیں۔ میں نے خود کو کمرے تک محدود کر لیا۔ میرے گھر میں سب کی رائے یہ تھی کہ میں وہم نہ کروں یہ کرونا نہیں ہے مگر بہرحال وہ میرے سماجی علیحدگی کے فیصلے پر میرا ساتھ دے رہے تھے۔ سب کمرے کے باہر سے ہی میرا حال احوال پوچھ جاتے تھے، میں نے چار دن کی بیماری کے بعد ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا تو گھر کے آدھے لوگ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں احتیاط ویسے بھی کر رہی ہوں اس لئے ٹیسٹ کرانے کا خیال بیکار ہے اور مجھے بس سماجی علیحدگی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ میں جذباتی طور پر کافی کشمکش میں گرفتار تھی، جب طبیعت نڈھال ہوتی تو میں سوچنے لگتی کہ مجھے کرونا ہے اور جب میں بہتر محسوس کرتی تو پھر میں بھی یہ سوچنے لگتی کہ یہ وہم ہے۔ لیکن جس چیز سے میں زیادہ تھک رہی تھی وہ سماجی دوری کا بوجھ تھا۔ میں اپنے بھتیجے اور بھتیجوں کو گود میں نہیں لے رہی تھی۔ ان سب کو بار بار یاد کرانا پڑ رہا تھا کہ پھپھو بیمار ہیں اور دور رہیں۔ اس کشمکش سے نکلنے کا واحد طریقہ ٹیسٹ تھا۔ اس لئے فیصلہ ہو گیا کہ میں کرونا کا ٹیسٹ کرانے جا رہی ہوں تو جناب پھر میں نے وہ وہ سازش کا پلاٹ سنا کہ بس میں دنگ رہ گئی۔ آپ بھی سنیں۔ بے شک ٹیسٹ منفی آئے لیکن ہسپتال والے مثبت کی رپورٹ دیں گے کیونکہ انہیں ہر مریض کے پیسے مل رہے ہیں۔ پھر ایک صاحب جو ایک ذمہ دار ریاستی ادارے میں نوکری کرتے ہیں انہوں نے میری ماں سے کہا کہ ٹیسٹ کرتے ہوتے ایسا کچھ جسم میں بھیج رہے ہیں جس سے انسان کے پھیپھڑے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔ خیر یہ سب کچھ سننے کے باوجود میرا ٹیسٹ ہو چکا تھا اور میں واپس اسلام آباد آ کر بھی مکمل علیحدگی میں تھی جیسے ہی رپورٹ مثبت آئی تو میں نے سوشل میڈیا پر اس کا اعلان کیا۔ میرے خاندان اور احباب میں سے کئی لوگوں کو میرا یہ اقدام ایک آنکھ نہ بھایا۔ میرے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو بس یہ تھا کہ میں ایک چھوٹی موٹی پبلک فگر ہوں اور ایک صحافی اور ذمہ دار شہری کی حیثیت سے مجھ پر کچھ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کو آگاہی دینے میں اپنا کردار ادا کروں اور لوگوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ کرونا ایک حقیقت ہے۔ ہماری ریاست نے شروع میں وبا کو ایسے ہینڈل کیا جیسے دہشت گردوں کو پکڑتے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے خبریں بھی ایسے ہی چلائیں۔ علاقہ سیل ہو گیا مشتبہ مریضوں کو مفرور مجرموں کی طرح اُٹھایا گیا۔ لوگ قرنطینہ سے ایسے بھاگے جیسے جیل سے بھاگتے ہیں۔ اس وبا کیلئے قوم کو طبی معلومات فراہم کرنے کیساتھ ساتھ جذباتی طور پر بھی تیار کرنے کی ضرورت تھی۔ لوگوں کو ان لوگوں کی کہانیاں زیادہ سنانے کی ضرورت تھی جو کرونا سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ آخر میں پڑھنے والوں سے بس یہ کہوں گی کہ قطار بنانا سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہاتھ دھونا اپنی زندگی کی قدر کرنا آپ کو بڑی پریشانی سے بچا سکتا ہے۔ اس موقع سے ہم سماجی تربیت کے بڑے ایجنڈے پر کام کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم یعنی ہمارا سماج ریاست اور حکومت ایسا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو۔ (بشکریہ: انڈیپنڈنٹ)

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند