2 217

ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں

ان دنوں میدانی یا نشیبی علاقوں کے لوگ شدت گرما سے پناہ حاصل کرنے کیلئے پُرفضا مقامات کی جانب نکل جایا کرتے تھے۔ ملکہ کوہسار، کوہ مری، ٹھنڈیانی، نتھیا گلی، وادی کاغان وناران، سیف الملوک، جھیل اور اس قسم کے بہت سے پُرمنظر مقامات گرمی سے پناہ مانگنے والے یا گرمی کی چھٹیاں گزارنے والے سیربینوں سے بھر جایا کرتے تھے۔ اک سیلاب اُمڈ آیا کرتا تھا نشیبی علاقوں کے رہنے والے ٹیکنی کلر لوگوں کا، جن میں کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگوں کے علاوہ نوبیاہتے جوڑے بھی ہوا کرتے تھے، لیکن شادی ہالز پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے پابندیاں لگنے کے بعد شادیاں کرنے کی رفتار اچھی خاصی کم ہوچکی ہے اور نوبیاہتا جوڑے
لڈن تو ہنی مون منانے گئے لندن
چل ہم بھی کلفٹن پہ کریں سیر سپاٹا
کا راگ الاپتے جہاں ہیں، وہیں رہنے میں عافیت سمجھنے لگے ہیں، ہمیں وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب پیشہ ور فوٹوگرافر کیمرہ اُٹھائے ان لوگوں کے پیچھے پڑ جایا کرتے تھے جو پُرفضا مقامات کی سیر کیلئے جایا کرتے تھے، وہ ساکت یا سٹل فوٹوگرافی بھی کرتے اور مووی یا فلم بنا کر کیسٹوں میں بھر کر سیربینوں کو تھما کر اچھے خاصے پیسے جھاڑ لیتے تھا، کمائی کا ایک ذریعہ تھا لیکن آج کل ہر کس وناکس کے پاس موبائل سیٹ موجود ہے اور ہر موبائل سیٹ میں کیمرہ لگا ہوا ہے، سو پُرفضا مقامات پر کیمرہ مینوں کی کھیپ ناپید ہوچکی ہے مگر مقامی لوگ صرف فوٹوگرافی یا فلمیں بنانے کے کاروبار سے وابستہ نہیں تھے، مارکیٹیں سج جاتی تھیں وہاں گرمی کے سیزن میں اور لوگ مہنگے داموں اشیاء خریدنے میں اسلئے خوشی محسوس کرتے کہ وہاں سے خریدی گئی ہر شے کو سوغات گردانا جاتا، مگر اس برس
کیا شکایت جو کٹ گئے گاہک
مال ہی جب دکان میں نہ رہا
کے مصداق وہ صورتحال نہیں جو پہلے ہوا کرتی تھی، ہمیں یاد پڑتا ہے کہ جب چلچلاتی گرمیوں کے موسم میں ملک کے کونے کونے سے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ آتی ان پُرفضا مقامات کی سیر کو تو ‘ہنومان دیس کے بندر’ بھی ان کا سواگت کرنے یا ان سے اپنی سواگت کرانے پہنچ جاتے، بڑے چور چکار، چھینا جھپٹی کرنے والے ہوتے یہ بندر، ہمارے بچے بالے ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے، مفت کے بندری تماشا سے محظوظ ہوتے اور اپنے من بھاتے کھاجوں میں سے ان کا حصہ بھی نکال کر ان کے پیٹ کے دوزخ کا بھی پالن ہار کرتے رہتے، بغیر کسی ویزہ یا پاسپورٹ کے پاکستان کی سرحد عبور کرکے آنے والے یہ بندر جون جولائی کے مہینے میں اسلئے پہنچتے کہ ان کو وافر مقدار میں خوراک مل جاتی اور کبھی کبھار کسی کا کوئی بیگ، تھیلہ یا شاپر نظر آجاتا تو یہ ٹولیوں کی صورت میں آکر اسے اچک کر بھاگنے لگتے اور چھلانگیں مارتے چنار کے درختوں پر چڑھ جاتے۔ رنگینیاں، بوقلمونیاں اور گلیات کی گلیوں کی رنگ رلیوں کا نام دے سکتے ہیں ہم ایسے ماحول کو، اپنا غم غلط کرنے کیلئے یا دکھوں بھری زندگی سے نجات حاصل کرنے کیلئے یہاں آنے والوں کی اس قدر بھیڑ ہوجاتی کہ ہوٹلوں میں جگہ نہ ملتی تو لوگ سڑکوں پر شب باشی کرنے لگتے، مہنگائی یا گرانی کا یہ عالم ہوتا کہ قیمتیں آٹھویں آسمان پر ہونے کے باوجود قوت خرید رکھنے والوں کے بس میں آجاتیں کہ اس موسم میں وہاں پیسے والے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے لوگ ہی جاتے جو اپنی اور اپنے ساتھ آئے ہوئے بال بچوں کی خوشی کیلئے ہر قسم کی خوشی ہر قیمت پر خرید کر خوش وخرم ہوجاتے مگر افسوس کہ اس بار گرمی کی حدت اور اس کی شدت کا بہانہ کر کے پُرفضا مقامات کی سیر کرنے والوں میں اچھی خاصی کمی آچکی ہے۔ میں نے اپنے ایک دوست سے سوشل رابطے کی ویب سائٹ پر ملاقات کے دوران پوچھا کہ کیا اب بھی وہی ماحول ہے وادی کاغان اور ناران کا، کیا اسی طرح لوگوں کا ہجوم گلیشیرز کے برف کے نیچے کھڑے ہوکر اپنی تصویریں بنوا رہا ہے، کیا اب بھی لوگ ٹراؤٹ مچھلی کھانے کی عیاشی کررہے ہیں، کیا اب بھی سڑکوں پر جمع ہوکر من چلے لوگ بھنگڑا یا لوک رقص کررہے ہیں جس کے جواب میں وہ ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا کہ لدھ گیا وہ زمانہ جب سیربینوںکا جم غفیر جمع ہوا کرتا تھا ان مقامات پر، جب لاک ڈاؤن شدید تھا، ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام کردیا گیا تھا، تو ان دنوں ہو کا عالم ہوا کرتا تھا لیکن لاک ڈاؤن میں نرمی ہونے کے باوجود لوگوں کی بھیڑ کا وہ عالم نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا، کتنی کمی آئی ہے، جب ان سے سوال کیا تو کہنے لگے 90فیصد کمی آگئی ہے، وہ لوگ جو سیزن کمایا کرتے تھے ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، اک اُداسی سی چھائی ہوئی ہے ہرسو اور ادھر عالم یہ ہے کہ
انوکھا لاڈلا کھلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے
کے مصداق کہیں نکل جانے کو مچل رہا ہے یہ دل، کسی کی بات کہ دل کی نہ مانئے کہ دل پاگل ہوتا ہے لیکن ہم ہیں کہ ہم سے دل کی کوئی بات ٹالی نہیں جارہی کیونکہ
ہم تو کچھ دیر ہنس بھی لیتے ہیں
دل ہمیشہ اُداس رہتا ہے

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی