5 125

طلباء اور شہریوں کے خطوط

آج کے کالم میں خیبرپختونخوا میں زیر تعلیم ایف ایس سی کے طلباء وطالبات اور صوبہ میں ادویات کا کاروبار کرنے والے تاجر وں کے خطوط شامل کرتے ہیں مشرق اور کالم کے قارئین کے ساتھ صوبے کے مختلف طبقات کا لکھنے والوں پر جو حق ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ایف ایس سی کے طلباء وطالبات نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ ”کورونا وائرس کی وجہ سے صوبہ میں ایف ایس سی کے امتحانات منسوخ کرتے وقت یہ وعدہ کیا گیا کہ امتحانات کی منسوخی سے طلباء متاثر نہیں ہوں گے۔ اکثرطلباء کو بغیر امتحان کے پروموٹ کیا گیا لیکن کچھ طلباء کے لئے ستمبر اکتوبر میں خصوصی امتحانات کا اعلان کیا گیا۔خصوصی امتحان بلا شک بورڈ لے مگر یہ امر بھی مد نظر رکھے کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کے تعلیمی اداروں کے لئے انٹری ٹیسٹ ہر سال اگست ستمبر میں ہوتے ہیں۔اب اگر ایڈیشنل بیالوجی، ایڈیشنل ریاضی وغیرہ کے خصوصی امتحانات ستمبر اکتوبر میں منعقد ہوں گے تو یہ طلباء اگست ستمبر میں ہونے والے انٹری ٹیسٹ میں کیسے شریک ہوں گے؟طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی بورڈز کو خصوصی امتحانات جولائی اور اگست کے اوائل میں لے لینے چاہئیں تھے تاکہ انٹری ٹیسٹ میں طلباء کی شرکت میں کوئی امر مانع نہ ہوتا۔ان کا کہنا ہے کہ خصوصی امتحان اورانٹری ٹیسٹ کے لئے تاریخیں اس طور متصادم ہیں کہ طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد رواں سال انٹری ٹیسٹ میں شرکت سے محروم رہ جائے گی جس سے ان کا ایک سال ضائع ہونے کے ساتھ مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے”۔ہماری دانست میں طلباء وطالبات کا خدشہ درست ہے تعلیمی بورڈز کے سربراہان کو چاہیئے کہ وہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے امتحانات اور انٹری ٹیسٹ کے لئے تاریخوں کا از سر نو تعین کریں۔ایڈیشنل مضامین کے امتحان کے بغیر انٹری ٹیسٹ میںشرکت ممکن نہیں اصولی طور پر خیبر میڈیکل کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی کو چاہیئے کہ وہ خصوصی امتحان کا نتیجہ آنے تک انٹری ٹیسٹ ملتوی کردیں۔اس کے لئے صوبائی وزیر تعلیم سیکرٹری تعلیم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر صاحبان اور تعلیمی بورڈز کے سربراہوں کو فوری طور پر لائحہ عمل وضع کرنا ہوگا۔ ہمیںامید ہے کہ طلباء وطالبات کے اس جائز مطالبے سے صرف نظر نہیں کیا جائے گا۔دوسرا خط پشاور کے چند شہریوں کی جانب سے ہے اپنے خط میں ادویات کی خرید وفروخت اور ڈرگ ایکٹ کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا ہے کالم کے دامن میں چونکہ گنجائش محدود ہوتی ہے اس لئے ان کے خط کے اہم نکات صوبائی وزیر صحت اور دیگر متعلقہ حکام کی توجہ کے لئے عرض کرنا ضروری ہے اور یہ بھی عرض کرنا لازم ہے کہ اس مسئلہ کا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جائزہ لے کر کم سے کم وقت میں حل تلاش کیا جائے۔خط میں کہا گیا ہے”گیارہ مئی 2017ء کو اس وقت کے وزیراعلیٰ جناب پرویز خٹک نے ڈرگ رولز 1982ء میں ترمیم کرتے ہوئے ڈرگ ایکٹ1976ء کے سیکشن44کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کیا۔ڈرگ رولز میں کی گئی ترامیم کے مطابق صوبے بھر میں میڈیکل اسٹورز،فارمیسی شاپس اور ادویات کے ڈیلرز اس امر کے پابند کر دیئے گئے کہ وہ حکومت کے وضع کر دہ نئے قوانین کے تحت ہی کاروبار کریں گے اور مستقبل میں لائسنس حاصل کر سکیں گے ۔اس قانون کے تحت فارمیسی اور میڈیکل سٹور چلانے والے شخص کا بی ایس سی فارمیسی ہونا لازمی قرار دیا گیا۔لائسنس کے لئے بھی یہی قاعدہ منظور ہوا،فارمیسی شاپ اور میڈیکل سٹور پر کاروبار کے اوقات میں متعلقہ اہلیت کے شخص کی موجودگی لازمی ہوگی۔ادویات کی فروخت ڈاکٹری نسخہ سے مشروط کردی گئی۔بد قسمتی سے کیمسٹ اینڈ ڈر گسٹ ایسوسی ایشن کی ہڑتال کی وجہ سے حکومت نے ان قوانین کا نفاذ2020ء تک ملتوی کردیا۔اور یہ اعلان بھی کیا کہ اس قانون پر عمل کے دن سے کیٹگری”سی”پر پابندی ہوگی۔گزشتہ دنوں صوبائی وزیر صحت شاہ فرمان سے کیمسٹ اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے وفد کی ملاقات میں اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ کیٹگری ”سی” پر پابندی پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا”۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم یہ ہر گزنہیں کہہ رہے کہ ادویات کا کاروبار کرنے والوں پر ناروا پابندیاں لگا دی جائیں لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ادویات کی خریدوفروخت کے حوالے بین الاقوامی طور پر مسلمہ قواعد وضوابط پر عمل کیا جائے گا فارمیسی کی الف سے نا آشنا آٹھ یا دس جماعتوں کی تعلیم کے حاملین کو میڈیکل سٹورز فارمیسی شاپس وغیرہ پر سیلز مین نہیں ہونا چاہیئے بلکہ ترمیم شدہ ڈرگ رولز پر عمل کیا جائے۔ حکومت ڈاکٹری نسخہ کے بغیر ادویات کی فروخت کے حوالے سے قواعد وضوابط پر عمل کروائے۔ میڈیکل اسٹورز اور فارمیسی شاپس پر اتائیت کے خاتمہ اور دیگر امور پر بہر صورت عمل کروایا جائے۔یہاں یہ عرض کردوں کہ شہریوں کی طرف سے لکھے گئے خط میں حکومت کو جن امور پر متوجہ کیا گیا ہے ان سے صرف نظر ممکن نہیں صوبائی حکومت کسی تاخیر کے بغیر ضروری اقدامات اٹھائے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی