1 180

دکھ بیتی زرینہ

گزشتہ روز ایف بی آر میں سرینا فائزعیسیٰ نے اپنی جائیداد کے بارے میں دستاویزات جمع کرا دی ہیں۔ ایف بی آر نے سپریم کورٹ کے حکم کے پس منظر میں ان سے تفصیلات چاہی تھیں، گمان تو یہ ہی تھا کہ سپریم کورٹ کا جب تفصیلی فیصلہ آجائے گا تو پھر یہ پھرتی ایف بی آر دکھائے گی، چلیں یہ ایف بی آر کی مرضی ہے، تاہم اس امر پر سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ آیا ایک معزز خاندان کے دروازے پر طلبی کی پرچی لگا دی جائے جیسے کہ وہ کوئی مطلوب فرد ہے، حالانکہ محترمہ سرینا اسپین کی بھی قومیت کی حامل ہیں اور کچھ کج ہوتا تو وہ بھی جہانگیر ترین کی طرح بیرون ملک مقیم رہ سکتی تھیں، ادھر کا رخ نہ کرتیں۔ انہوں نے تو خود اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیا تاکہ عوام کے دلوں میں کوئی اُلجھن نہ رہے، بات شفاف ہو جائے۔ محترمہ سرینا کا خاندان نہ صرف پاکستان میں جانا پہچانا ہے بلکہ بیرون دیس بھی ان کا خاندان جانا جاتا ہے، صرف یہ نہیں کہ وہ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہیں بلکہ تحریک پاکستان کے صف اول کے سپاہی قاضی عیسیٰ کی بہو بھی ہیں جن کا کردار پاکستان کیلئے مثالی ہے، وہ سسرال، میکے اور خود سے بھی ہری بھری ہیں، محترمہ سرینا کی والدہ کا سپین سے تعلق ہے اور ان کا نام اس اندازہ میں منتخب کیا گیا کہ وہ مشرق ومغرب سے ہم آہنگ رہے، سرینا اسپینش زبان کا لفظ ہے اور اس کا اُردو میں ترجمہ زرینہ جو لفظ زرین کا مؤنث ہے، جس روز انہوں نے اپنے اثاثوں کے کاغذات ایف بی آر کے حوالے کئے اسی رو ز انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ جس روز میرے والد کا انتقال ہوا اُسی روز میر ے گھر کے گیٹ پر طلبی کی پرچی چسپاں کر دی گئی۔ یہ سب کچھ میرے گھر کے اسٹاف اور پڑوس کی موجودگی میں ہوا تاکہ ان کے سامنے میری تذلیل کی جاسکے، سرینا کا یہ مؤقف درست ہے کہ پورے پاکستان میں یہ خبر پھیلی ہوئی تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہوا ہے، نوٹس کچھ روز کیلئے مؤخر کیا جا سکتا تھا کیونکہ انہوں نے اپنا حساب کتاب خود عدالت میں پیش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ سرینا کے بیان کے یہ الفاظ بھی غورطلب ہیں کہ نو جولائی کو وہ اپنا جواب جمع کرانے گئیں تو اس وقت کہا گیا کہ یہ چھڑی کیساتھ تیزی سے چلتی ہوئی دیکھی گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دکھاوا کر رہی ہیں، جواب میں انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ میں کولہے تک میٹل پلیٹ اسکرو کا ذاتی ایکسرے سامنے لارہی ہیں تاکہ اس پر پروپیگنڈے کی نفی کی جاسکے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کو ان تنفرآمیز ہتھکنڈوں سے تکلیف پہنچی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ معاملہ قاضی عیسیٰ کیخلاف ریفرنس سے اُٹھا تھا جس پر سرینا نے ازخود مؤقف عدالت میں پیش کیا کہ ریفرنس میں متذکرہ جائیدادوں کا تعلق قاضی عیسیٰ سے نہیں ہے وہ ان کی اپنی ذاتی ہیں جس کے وہ ثبوت پیش کر سکتی ہیں، عدالت نے ان کی اس پیشکش کو ایف بی آر کے حوالے کیا اور ایف بی آر کی تحقیقی رپورٹ کو سپریم جوڈیشنل کونسل سے جوڑ دیا جو پاکستان کی آئینی اور قانونی تاریخ کا ایک نیا باب بن گیا، قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں کہیں بھی ایف بی آر فریق نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے سے ایف بی آر کی فریق کی حیثیت بنتی ہے بلکہ ایک غیرجانبدار تحقیقی ادارے کی صورت بن جاتی ہے، پھر سرینا کا دہائی دینا ایسا لگتا ہے کہ ایف بی آر ایک اہم فریق کا کردار ادا کرنے کی طرف جارہا ہے، جسٹس قاضی عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے بیان میں کچھ دوسری دردبھری داستان کا بھی ذکر کیا ہے اور کہا کہ جو انہوں نے نہیںکہا وہ کہا گیا اسلئے وہ اب براہ راست جواب جاری کر رہی ہیں، کیونکہ اس کے سوا چارہ نہیں ہے۔ خدالگتی بات ہے کہ ایک خاتون جس کا کوئی لینا دینا نہ تھا اس نے بات مصفاء کرنے کی غرض سے خود کو کٹہرے میں کھڑا کر دینے کی پیشکش کی جس کی قدردانی ہونا چاہئے تھی چہ جائیکہ اس کی کردارکشی کی جائے جبکہ کسی بھی سرکاری ادارے کا تعلق اس بات سے نہیں ہے کہ ایک شہری کے بارے میں توہین آمیز فضا قائم کرے، سرینا کی یہ بات بھی درست ہے کہ کیا ایف بی آر عمران خان سے یہ استفسار کرنے کا جگرا رکھتا ہے کہ وہ ان سے کم ٹیکس کیوں ادا کرتے ہیں، ان سے کم ٹیکس ادا کرنے والے عمران خان کس طرح تین سو کنال کی جائیداد رکھ اور خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔ کیا ایف بی آر کے پاس اس امر کی کوئی وضاحت ہے کہ ان کے گوشوارے اور دیگر دستاویزات دوسروں کے ہتھے کیسے لگے؟ عمران خان، عبدالوحید ڈوگر، شہزاد اکبر، انور منصور اور فروغ نسیم کے ٹیکس گوشوارے ان کو فراہم کئے جا سکتے ہیں، ساتھ ہی سرینا عیسیٰ نے مطالبہ کیا کہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کا ٹیکس ریکارڈ فراہم کیا جائے کہ انہوں نے کب ٹیکس دینا شروع کیا اور یہ بھی کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بیویوں اور بچوں کی تفصیلات فراہم کیں یا نہیں۔ سرینا عیسیٰ کی اس دہائی سے اندازہ لگ رہا ہے کہ ان کا ایف بی آر پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے اور جانبداری کی بو آرہی ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے اس بارے میں ایف بی آر والے ہی وضاحت کر سکتے ہیں اور ان کو کرنا چاہئے کیونکہ عوام میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ کچھ عناصر کسی طور قاضی عیسیٰ کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز نہ ہونے دینے کی خواہش کے حامل ہیں، ایسا تاثر بھی ضائع ہونا چاہئے اور ایک اعتماد کی فضا میں کام ہونا ہی بہتری ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات