p613 54

قوانین پر عملدرآمد میں سنجیدگی کی ضرورت

خیبرپختونخوا میں زیر زمین آبی ذخائر کے تحفظ اور پانی کو مختلف استعمال کیلئے محفوظ بنانے اور اس کیلئے طریقہ کار وضع کرنے کیساتھ ساتھ واٹر ریسورس ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام حوصلہ افزاء قدم ہے۔ آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کو جرم قراردے کر تین ماہ قید اور پانچ لاکھ جرمانہ کی سزاء قانون کی حد تک تو قابل تحسین ہے لیکن اس پر عملدرآمد کا سوال ضرور اُٹھے گا۔ اس قانون کا اطلاق عملی طور پر ہونے سے صرف صوبائی دارالحکومت پشاور کے نہروں کے کنارے کی آدھی سے زیادہ آبادی کو قید وجرمانہ ہوگا۔ امرواقعہ یہ ہے کہ نہروں میں سیوریج کا پانی گرانے کی پہلے سے بھی ممانعت ہے یہاں تک کہ عدالت عالیہ پشاور اس ضمن میں متعلقہ محکمہ کو احکامات بھی جاری کر چکی ہے لیکن عملدرآمد ندارد،اسی طرح سروس سٹیشنز پر پانی کے بے دریغ استعمال کی روک تھام دعوئوں اور کوششوں کے باوجود نہیں ہوسکی، دریائوں اور ندی کے کنارے ہوٹل، ریسٹورنٹس اور صنعتی وکاروباری چھوٹے بڑے یونٹوں میں پانی کے استعمال کے بعد اس کو محفوظ طور پر ٹھکانے لگانے اور صاف پانی میں شامل ہونے سے روکنے کا قانون موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا،یہاں تک کہ پانی کا گھریلو استعمال اور آبنوشی کی فراہمی وتحفظ کا معاملہ بھی روایتی غفلت کا شکار اور اصلاح طلب ہے۔ کسی نئے ادارے کے قیام کی مخالفت مناسب نہیں البتہ حلال فوڈ اتھارٹی جیسے ادارے کی فعالیت اگر مایوس کن صورت میں سامنے ہو اور قوانین کی موجودگی کے باوجود عملدرآمد کی صورتحال نہ ہونے کے برابر ہوتو کسی نئے ادارے اور قانون سازی سے خواہ مخواہ کی اُمیدیں وابستہ کرنے کی بجائے اگر حکومت کو مروج قوانین پر پہلے عملدرآمد کروانے کا مشورہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پانی کے ضیاع کی روک تھام اور پانی کا جائز استعمال یقینی بنانے اور آبی ذخائر کاقیام وتحفظ بنیادی انسانی ضروریات میں سرفہرست امور میں ہیں۔پانی کے ذخائر میں کمی اور غیر قانونی استعمال سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلے جانے سے پیدا شدہ حالات اور خاص طور پر مستقبل میں اس کے اثرات وخطرات یقینا اس امر کے متقاضی امور ہیں جن پر توجہ اور انتظام کیلئے ادارہ قائم کیا جائے۔ حکومت نے اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ اور قانون سازی کا فرض ادا کیا ہے جسکے بعد ادارے کو فعال بنانا اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنانا بطور خاص امتحان ہوگا جس کے بغیر یہ ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ جن مقاصد کیلئے ادارے کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے اس کے قیام سے قبل ہی مروجہ قوانین پر عملدرآمد کا عملی طور پر آغاز ہوگا اور عوام کو پابند قانون بنانے پر توجہ دی جائے گی۔
لوڈ شیڈنگ سے انکار کی عجیب منطق
ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلشنز پیسکو کی صوبے میں کہیں بھی اضافی لوڈشیڈنگ نہ ہونے کا دعویٰ ان لاکھوں صارفین کو یکسر جھٹلا نا ہے جو بے تحاشا لوڈشیڈنگ اور بجلی کی تعطلی وبندش سے سخت نالاں ہیں۔ پیسکو کی جانب سے لوڈشیڈنگ کا کوئی مقررہ وقت نہیں، دن رات بجلی کی جاری آنکھ مچولی میں یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ کب لوڈشیڈنگ کی بناء پر بجلی چلی گئی اور کب آئی اور کب فنی خرابی اور ضروری مرمت کیلئے بند کی گئی۔ بلاشبہ بجلی کی بندش، ضروری مرمت اور فنی خرابی کی بھی گنجائش اور امکان قابل تسلیم امور ہیں لیکن اس کی آڑ میں بجلی کی آنکھ مچولی کو کیا نام دیا جائے اور اس کی موصوف کیا تشریح کرتے ہیں اور کیا نام دیتے ہیں یہ واضح نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ صوبے کے عوام بجلی کی آنکھ مچولی سے ہی عاجز نہیں آئے بلکہ اس کے باوجود اضافی اور بھاری بھر کم بل آنے پر بھی عوام نالاں ہیں۔ بہتر ہوگا کہ صارفین کو جھٹلانے کی بجائے پیسکوں حکام بجلی کی فراہمی کی صورتحال بہتر بنانے پر توجہ دے کر عوام کو مشکلات سے نکالنے کی سعی کریں۔
آبنوشی کا مسئلہ جلد حل کیا جائے
گڑھی قمر دین کو ہاٹ روڈ کے مکینوں کو ہفتے میں دو دن پانی کی فراہمی اور کم پریشر کا مسئلہ فوری توجہ طلب مسئلہ ہے جسے دور کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے، دیکھا جائے تو یہ صرف گڑھی قمر دین ہی کے مکینوں کا مسئلہ نہیں بلکہ گرمیوں کے موسم میں شہر بھر اورصوبہ بھر میں آبنوشی کی فراہمی میں اچانک اضافہ ہو جاتا ہے، اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ شکستہ اور رستے ہوئے پائپ، لوڈشیڈنگ اور ٹیوب ویل مناسب مدت کیلئے نہ چلانا ہے۔ سالہاسال سے چلنے والے ان مسائل کے حل پر مسئلہ سنگین ہونے پر توجہ اور عوامی احتجاج پر کارروائی کا رویہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے باعث عوام سخت مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ اس سنگین مسئلے کے فوری حل کیساتھ ساتھ آبنوشی کی بلا تعطل اور پورے پریشر کیساتھ فراہمی کیلئے طویل المدتی اور مستقل اقدامات کئے جائیں اور عوام کو اس مشکل سے چھٹکارا دلایا جائے۔ حکومت کو کم ازکم شہریوں کو پینے کے پانی کی فراہمی میں تو ناکامی کے الزام سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے