5 128

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

رائے بہادر ڈنگا سنگھ متحدہ ہندوستان کے بڑے کاروباری انسان تھے، جن کی کاروباری فرم اس قدر بڑی تھی کہ اسے نوکریوں اور بھرتیوں کے حوالے سے محاورے کے طور پر یاد کیا جانے لگا۔ ملازمین کے اتوار بازار کی وجہ سے ہر ایسے ادارے کو ڈنگا سنگھ کی فرم کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں نت نئی منظرعام پر آنے والی جے آئی ٹیز کو پڑھیں یا کسی ہائی پروفائل مطلوب شخص کے بیانات کو سنیں، کسی ادارے کی کہانی سنیں یا کسی محکمے کی فائل دیکھیں تو بے ساختہ یہ سوال زبان پر آتا ہے کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں یہ واقعی کوئی ملک تھا یا ڈنگا سنگھ کی فرم؟ جہاں کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا بس پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر نوکری خواہش مند کی منتظر ہوتی تھی۔ سالہا سال پر محیط یہ داستان پڑھیں تو جہاں یہ محاورہ سچ نظر آتا ہے کہ پاکستان کا قیام ایک معجزہ تھا مگر اس سے بڑی حقیقت یہ نظر آتی ہے کہ ان طور طریقوں سے پاکستان کا بہتر سال تک گھسٹ گھسٹ کر پہنچنا اس سے بھی بڑا معجزہ ہے۔ کسی ملک کی شناخت اور پہچان اس کی معیشت کی بنیاد، اس کے نمایاں اور بڑے ادارے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے تمام اداروں کو میرٹ کی راہ سے ہٹاکر ڈنگا سنگھ جی کی فرم بنا کر حقیقت میں ان کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا گیا تھا۔ پھر واقعی یہ سفر منزل پر جا کر ختم ہوا اور آج پاکستان سٹیل مل سے ریلوے اور پی آئی اے سے پاسپورٹ اور نادرا تک ہر ادارے اور علامت دیوالیہ پن کے قریب اور بے توقیری کا نشان بن چکی ہے۔ پی آئی اے کی تازہ کہانی نے ایک بڑے ادارے میں زوال کی چھپی ہوئی داستان کو بے نقاب کیا ہے۔ کراچی طیارہ حادثہ کے شہدا کے خون نے ہمیں بتا دیا کہ پی آئی اے کا ٹائٹینک کس طرح دیوالیہ پن کے آئس برگ کے سامنے آچکا ہے۔ اس حادثے نے دیوہیکل ادارے میں بے ضابطگیوں سے کچھ پردہ سرکایا ہے۔ وزیراطلاعات شبلی فراز نے اعلان کیا ہے کہ کراچی حادثے کے بعد ہونے والی تحقیقات کے بعد اٹھائیس پائلٹس کو جعلی ڈگریوں کی وجہ سے برطرف کیا گیا ہے جبکہ چونتیس کو معطل کیا گیا ہے۔ ان پائلٹس نے جس دن فلائٹ کی اسی دن امتحان بھی پاس کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن کے چالیس فیصد لائسنسوں میں بے ضابطگی ہوئی اور زیادہ تر لائسنس پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ادوار میں ایشو ہوئی۔ جس ملک میں جعلی لائسنس کے حامل لوگ فضاؤں اور بلندیوں میں انسانی جانوں سے کھیلنے پر مامور ہوں اس ملک میں اصلی ڈگری والوں کو رکشہ چلانا اور پکوڑے بیچنا چاہئے۔ اس ملک میں یہی ہوتا رہا ہے، یہ کسی ملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہوتا کہ صلاحیت، قابلیت اور اہلیت کے حامل افراد کی جگہ جعل سازی کے مرتکب افراد اداروں میں جگہ پاکر فیصلہ سازی کی قوت حاصل کریں۔ پاکستان میں یہی تماشا چلتا رہا، اس میں سیاسی اور فوجی حکومتوں کی قید نہیں۔ جنرل ضیاء الحق ٹریڈ یونینز اور انجمن سازی کیخلاف تھے، انہوں نے ہر ادارے میں کارکنوں کے اس حق کو کچلنے کی کوشش کی، اسی سوچ کا شکار طلبہ کی انجمن سازی کا حق بھی ہوا۔ ان پابندیوں نے آمرانہ حکومت کو بڑے اداروں میں کھل کھیلنے کا موقع دیا اور وہ اپنے کاسہ لیسوں کی ایک فوج تیار کرنے پر مائل ہوئے۔ انتظامیہ اور کارکنوں کے درمیان فیصلوں کا جو توازن تھا انجمن سازی کے حق پر پابندی نے اسے بری طرح خراب کر دیا، جامعات میں جو آج روح فرسا واقعات اور سیکنڈل سامنے آتے ہیں وہ بھی اسی توازن کی خرابی کی وجہ سے ہیں، ضیاء الحق کی رخصتی کے بعد جمہوریت کا سورج طلوع ہوا اور بحالی جمہوریت کے صلے میں بیرونی دنیا نے مختلف پروجیکٹس کے نام پر ہمیں قرض اور امداد دینے کا آغاز کیا تو اس سے کرپشن کا عفریت دندناتا چلا گیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست میں نوازشریف کو دائیں بازو بالخصوص جماعت اسلامی کی مزدور انجمنوں پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملا اور بنی بنائی ٹریڈ یونینز کے یوں ہاتھ آجانے کے بعد اپنا حلقہ اثر وسیع کرنے کی خاطر مزید بھرتیاں کرنے کا شوق سا پیدا ہوا۔ یوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں میں بھرتیوں کا مقابلہ شروع ہوا۔ حد تو یہ پولیس جیسا محکمہ بھی سیاست کی زد میں آگیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اداروں کے زوال کا سفر تیز ہوگیا۔ اداروں کے بغیر ملکوں اور معاشروں کی مثال چلے ہوئے کارتوس کے خول سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اداروں کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر پاکستان کا زندہ رہنا اور زندگی کی سانسیں لیتے چلے جانا معجزہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب عمران خان کی حکومت ماضی کی غلط روایتوں کو بدلنے کے دعوے کیساتھ قائم ہوئی ہے تو انہیں اداروں کی اصلاح اور اوورہالنگ کے کام کو ہر قدم پر پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہر بیمار اور تباہ حال ادارے کو شفایاب بھی کرنا چاہئے مگر وہ اس حال تک کیسے پہنچے؟ عوام کو یہ راز بھی معلوم ہوناچاہئے۔ یوں پاکستان میں اداروں کی زوال آشنا ہونے کی کہانی بہت دردناک اور طویل ہے جس پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں