p613 59

بھاری مراعات ،اب بس

سنیٹیشن کمپنیوں کے افسران سے آٹھ کروڑ روپے کی تنخواہوں کی مد میں وصول شدہ رقم کی ریکوری عدالت عظمیٰ کا حکم ہے جس پر ہر حال میں عملدرآمد ہونا ہے، اس سے قطع نظر دیکھا جائے تو وطن عزیز کی بیوروکریسی صرف سرکاری عہد ہ رکھتے ہوئے کمپنیوں ہی سے بھاری مراعات وصول نہیں کرتی بلکہ درجنوں ایسے مواقع سے بالعموم استفادہ کرتی ہے جو قومی خزانہ پر خواہ مخواہ کے بوجھ کا باعث بنتا ہے۔ مختلف قسم کی اتھارٹیز میں بھاری مراعات لیکر سرکاری افسروں کی تقرری کا معاملہ صرف بھاری تنخواہوں اور مراعات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ شتر بے مہارقسم کے اختیارات کے باعث نوازنے کے بھی بے شمار مواقع سے فائدہ اُٹھانا معمول کی بات ہوتی ہے، ایک سرکاری افسر کا دو دو تین تین عہدوں کا اضافی چارج اور ہر طرف سے مراعات سمیٹنا گاڑیوں کا بے جا استعمال غرض کئی راستے کھل جاتے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ سب بیوروکریسی کے اپنے ہی وضع کردہ وہ راستے ہیں جس کا ہر بااثر اور موقع پرست سیاسی وحکومتی اشیر باد سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سرکاری افسر ملازم سرکار ہونے کے باوجود اپنے گریڈ کے مطابق تنخواہ کی وصولی پر ان ذمہ داریوں کیلئے اہل نہیں گردانا جاتا مگر ڈیپوٹیشن پر یا اتھارٹی میں جا کر بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے پر اس کی قابلیت وصلاحیت کو چار چاند لگنے کا فرض کر لیا جاتا ہے، اس قسم کی اندھیرنگری قومی خزانے پر بوجھ اور تباہی کاباعث ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو پنشن کے خاتمے، پنشن کی عمر میں کمی یا سرکاری ملازمین کے سالانہ انکریمنٹ جیسی اُمیدوں پر پانی پھیرنے پر غور کرنے کی بجائے اگر بلاضرورت کمپنیاں اور اتھارٹیز بنانے، دو دو تین تین عہدوں اور چارج کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے کی وصولی کے راستے بند کر دے تو یہ زیادہ مناسب اور قابل عمل بات ہوگی۔ ایک ہی گریڈ کے بعض افسران کی بھاری مراعات پر دیگر اداروں میں جانے سے سرکاری افسران میں بد دلی اور کمتری کا احساس پیدا ہونا اور اس سے ان کی کارکردگی پر اثر پڑنا فطری امر ہے۔ حکومت اہل اور قابل افسروں کو میرٹ کے مطابق اداروں میں بھیجنے اور ان سے کام لینے کو ان کے سرکاری فرائض منصبی کا حصہ ہی رکھے۔ ان کیلئے بھاری مراعات کا راستہ ہموار کر کے قومی خزانے اور پبلک کے ٹیکس کی رقم سے یوں نوازنے کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ حکومت نے جو کمپنیاں اور اتھارٹیز قائم کی ہیں ان کی ضرورت واہمیت کی بحث سے قطع نظر ان کو اگر سرکاری افسران ہی سے چلانی ہے تو پھر اضافی مراعات دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی مارکیٹ سے سیاسی حمایت، سیاسی طور پر نوازنے اور اقرباء پروری پر بلاوجہ کے ماہرین تعینات کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اگر حکومت ضرورتاًاور عوامی مفاد میں ایسا کرتی ہے تو پھر ان کی کارکردگی بھی اس معیار کی سامنے آئے اور یہ ثابت ہو کہ وہ فرد مہارت وتجربہ کے باعث ان مراعات وفوائد کا حق دار تھا۔ حکومت دوہرے عہدوں کے حامل افسران سے عہدے واپس لے اور بلاوجہ مراعات لینے والے عہدوں کی مراعات بھی کم یا ختم کئے جائیں۔
پولیس رے پولیس تیر ی کونسی کل سیدھی
تہکال پولیس کے شہری پر تشدد، برہنہ کرنے اور لاقانونیت کی انتہا کرنے کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کے دوران دو ایس ایچ اوز کو بچانے کی جو محکمہ جاتی کوشش ہورہی ہے اس میں پولیس کس حد تک کامیاب ہوتی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ کورونا میں مبینہ طور پر مبتلا ایس ایچ اوز مزید کتنے عرصے میں صحت یاب ہوں گے اور آیا ان کی بیماری کی شدت واقعی اس قدر سخت ہے کہ وہ بیان ریکارڈ کرانے کے قابل نہیں، عدالتی کمیشن کی مدت کا معاملہ بھی غورطلب ہے، اس ساری صورتحال سے قطع نظر بجائے اس کے کہ پولیس اس واقعے سے سبق حاصل کرتی، صوبے میں پولیس کی زیادتیوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں اور نہ ہی پولیس کے روئیے میں خاطرخواہ تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی سنجیدہ سعی ادارہ جاتی طور پر نظر آتی ہے۔ پولیس کا سربند میں ایک شہری کو قتل کر کے مقابلے کا رنگ دینا اس امر کا کھلا عندیہ ہے کہ پولیس اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں اور نہ ہی ان کو محکمہ جاتی کارروائی اور کسی تعزیز کاڈر ہے۔ ہر واقعے کی تحقیقات اور عدالتی کمیشن کا قیام بھی ممکن نہیں ہوتا اور نہ ہی میڈیا اس طرح کے واقعات کو مستعدی سے سامنے لانے کی ذمہ داری نبھارہا ہے۔ اس طرح کے معاملات پر پولیس چیف اور حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کو غور کرنے اور اقدامات کی ضرورت ہے کہ اصلاحات کے نتیجے میں خیبر پولیس کے مثالی ہونے کے دعوئوں کا کچھ تو بھرم رہے۔

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟