2 229

محبتوں کے ابدی رشتے

رات نو بجے مین گیٹ پر گھنٹی کی آواز سنی تو میں نے جا کے گیٹ کھول لیا۔ دیکھا تو ہمارے ادارے کے ایک چھوٹے درجے کے بزرگ ملازم کا صوفی سا بیٹا گیٹ پر کھڑا تھا۔ اٹھائیس تیس سال کا خوبصورت لمبی داڑھی والا جوان جس کے چہرے سے ہمیشہ شرافت اور متانت ٹپکتی تھی۔ چونکہ اس کی بیوی بھی ساتھ تھی اور ایک بچہ بھی تھا اور اس کی بیوی مسلسل روئے جا رہی تھی اسلئے میں نے گیٹ سے واپس کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اندر بلا لیا۔ اندر آکراس کی بیوی نے حتمی لہجے میں بتایا کہ میرا اب ساس سسر کیساتھ گزارا مشکل ہے۔ چونکہ وہ دونوں گھر سے لڑ کر آئے تھے اسلئے کھانا نہیں کھایا تھا۔ میں نے ان کو کھانا لاکر دیا اور ان سے پوچھا کہ مسئلہ کیا ہے۔ دو گھنٹے کی رام کہانی سنانے کے بعد مجھے اتنا پتہ چلا کہ وہی ساس بہو کے روایتی گلے شکوے۔
اس دوران رات کا ایک بج چکا تھا، میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے والدین کو پتہ ہے کہ آپ لوگ کہاں گئے ہیں تو جواب آیا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کھانا کھا لیا تھا۔ تو کہا کہ نہیں۔ بس کھانا لگنے والا تھا کہ توتکار ہوگئی۔ کافی دیر خاموشی کے بعد میں نے خاتون سے پوچھا کہ اگر آپ کا یہ بچہ اچانک کہیں گم ہو جائے تو آپ کتنے عرصے تک اس کی جدائی برداشت کر سکتی ہیں، جواب آیا کہ ایک لمحہ بھی نہیں۔ میں تو اس کے غم میں مر جاؤنگی۔ میں نے کہا کہ اس وقت بھی کالونی کے ایک گھر میں بوڑھے والدین کا ایک بچہ گم ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں ان پر کیا بیت رہی ہوگی۔ خاتون نے فوراً پوچھا ”کس گھر میں اور کون” لیکن فوراً ہی اسے احساس ہوا کہ میرا اشارہ کس طرف ہے۔ شرمندہ ہو کر سر جھکا لیا۔
میں نے ان کو والدین کے حقوق اور ان کی اپنی اولاد سے محبت کے بارے میں لیکچر دیا اور شرط لگائی کہ ان کے والدین اپنے اکلوتے بیٹے کی جدائی کے غم میں آج رات بھوکے سوئیں گے اور چند دن کے اندر بیمار ہو کر بستر سے لگ جائیں گے۔ مزید بتایا کہ آپ صبر کریں، ہمت سے کام لیں، یہ وقت گزر جائیگا اور والدین کی دعائیں شامل حال رہیں تو آپ دونوں کے بچے جلد ہی تعلیم حاصل کرکے اسی ادارے میں آفیسر لگ جائیں گے اور شاید یہی میرے والا بنگلہ ان کو الاٹ ہو جائے اور آپ بھی مزے سے اسی بنگلے میں رہیں۔
صوفی صاحب کا دل نرم پڑچکا تھا، اس کی بیوی بھی سر جھکائے شرمندہ بیٹھی تھی۔ صوفی صاحب نے بھرآئی ہوئی آواز میں کہا کہ سر میں اپنے والدین کی خبر لینے ذرا اپنے گھر ہوآؤں۔ بیوی بولی میں بھی جاؤں گی۔ میں نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے۔ رات کے دو بجے ان کے گھر پہنچ کے دیکھا کہ ان کے گھر کا باہر کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ پریشانی میں ہم دونوں اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ دسمبر کی سرد ترین رات میں اس کے ماں باپ گھر کے صحن میں زمین پر بیٹھے آنسو بہا رہے تھے۔ صوفی صاحب نے پیار بھرے غصے میں کہا کہ کم ازکم باہر کی کنڈی تو لگا لیتے۔ کوئی چور ڈاکو آجاتا تو۔۔۔ اس کے والد نے کہا کہ بیٹا اس گھر میں ہماری سب سے قیمتی چیز آپ اور بہو رانی تھی، جب آپ دونوں گھر سے چلے گئے تو اب کس چیز کی چوری کا ڈر؟ دونوں باپ بیٹا بغلگیر ہو کر رونے لگے اور دونوں نے اکٹھے صوفی کی ماں کو زمین سے اُٹھایا جو شدت غم سے بے ہوش ہوئے جا رہی تھی۔ صوفی کچن کی طرف بھاگا کہ ماں کیلئے کچھ دودھ وغیرہ لے آئے۔ فوراً واپس آکے پوچھا کہ آپ لوگ آج بھوکے سو رہے تھے۔ کھانا تو ویسے کا ویسے پڑا ہوا ہے؟ ماں باپ نے جواب نہیں دیا، بس خاموشی سے آنسو بہانے لگے۔ ان کو روتا چھوڑ کر میں خاموشی سے گھر چلا آیا۔ جب خونی رشتوں کی ابدی سچائی کے جذبے بیدار ہو چکے تھے تو پھر ان کو دل کھول کر آنسو بہانے کیلئے تنہا چھوڑنا ضروری تھا۔
کچھ سال بعد میں ریٹائر ہو رہا تھا تو انہوں نے الوداعی دعوت کھلانے کی پیشکش کی، میں نے اپنی مجبوریاں بتا کر معذرت کرلی۔ رات کو گھنٹی بجی تو دیکھا کہ صوفی صاحب اپنی بیوی اور والدین کیساتھ کھڑے ہیں۔ ساتھ دو پیارے پیارے بچے بھی تھے۔ بتایا کہ آج بہت سارے شکرئیے کیلئے حاضر ہوئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ باباجی کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے اور انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر بہت ساری دعائیں دیں۔ آج کئی سال بعد بھی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اولاد اپنے والدین کی محبت تولنے کا کوئی ترازو نہ رکھنے کے باوجود خواہ مخواہ غلط اندازے لگا لیتی ہے حالانکہ ایسا ترازو ابھی تک ایجاد ہی نہیں ہوا جو والدین کی بے پایاں محبت کو تول سکے۔ انسان ہوں، پرندے ہوں، درندے ہوں یا چرندے، سب اپنے بچوں پر جان دیتے ہیں۔ ایک کمزور مرغی اپنے بچوں کو بچانے کیلئے خونخوار کتے پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ معمولی چڑیا ایک بڑے باز حتی کہ ایک کوبرا سانپ کے سامنے ڈٹ جاتی ہے۔ اللہ نے بھی ماں کی محبت کو خالص ترین قرار دیکر اسی کو سٹینڈرڈ قرار دیا ہے۔ فرمایا کہ میں تو اپنی مخلوق سے ستر ماؤں کے برابر محبت رکھتا ہوں۔ بھلا اس سے بڑا کوئی ثبوت ہو سکتا ہے ماں کی محبت کا؟ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور والد جنت میں جانے کا دروازہ ہے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام