p613 59

مشرقیات

بیان کیا جاتا ہے کہ مامون الرشید نے ایک باندی خریدی جو حسن صورت اور حسن سیرت دونوں میں بے مثال تھی۔ وہ اپنے اس انتخاب پر بہت خوش تھا لیکن جب اس سے گفتگو کرنی چاہی تو باندی نے بے رغبتی اور نفرت ظاہر کی۔ بادشاہ کے سامنے باندی کی حیثیت ہی کیا تھی’ اس نے غصے سے بے قابو ہوکر لونڈی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن پھر اس کا تدبر غضب پر غالب آگیا اور اس نے اس گستاخی کی وجہ پوچھی۔ باندی نے جواب دیا ”اے امیرالمومنین! آپ بیشک مجھے قتل کردیں میں آپ کی ہم نشینی پسند نہ کروںگی”۔مامون غصے سے بے قابو ہو گیا لیکن ایک بار پھر سنبھلا اور پوچھا ”اس کی وجہ؟”لونڈی نے جواب دیا ”آپ کے منہ سے سخت بدبو آتی ہے جسے میں برداشت نہیں کرسکتی۔”مامون کو اپنی اس بیماری کا کچھ علم نہ تھا’ کسی نے آج تک یہ جرأت ہی نہ کی تھی کہ اسے آگاہ کرتا۔ اگرچہ اسے لونڈی کی یہ بات سن کر پہلے سے بھی زیادہ غصہ آیا لیکن اس نے تحمل سے کام لیا’ طبیب کو بلاکر اس سے مشورہ کیا اور چند روز علاج سے صحت مند ہوگیا۔ لونڈی کی صاف بیانی کے باعث اس نے اس کی بہت قدر کی۔
حضرت سعدی نے بتایا کہ غصے پر قابو پانا یقینا بہت بڑی سعادت ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے۔ مولانا حالی نے اس بات کو بہت خوبصورت اور مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔
شعبدہ جانوں اگر کوئی چلے پانی پر
غصہ پی جائے جو کوئی تو کرامت سمجھو
مگر آج کے دور میں اگر ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس دور کا انسان برداشت وصبر کا مادہ کھو بیٹھا ہے۔ اگر کوئی حق بات اس کے سامنے کرے اور وہ اس کی طبیعت پر ناگوار گزرے تو فوراً مرنے مارنے پر اُتر آتا ہے۔ ہمارے گرد وپیش میں آئے روز ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات روز کا معمول ہیں اگر کسی موضوع پر بحث مباحثہ چل رہا ہے تو اس میں بات دلائل سے ہو رہی ہوتی ہے مگر اچانک ایک فریق کسی دلیل پر لاجواب ہو جاتے تو وہ منہ سے جھاگ اُڑانے لگتا ہے اگر کسی جگہ مذہبی مباحثہ ہو رہا ہے اور دو مختلف مسالک کے افراد کسی بات پر بحث کر رہے ہیں تو بات دلائل سے نکل کر تکفیر تک جاپہنچتی ہے اور پھر ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور بات ہاتھاپائی سے قتل وغارت تک جا پہنچتی ہے اور معاشرے میں بدامنی پیدا ہوتی ہے۔
اگر ہم خود پر قابو پائیں تو اس معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو