1 185

کالا دھن سفید من

عام پاکستانی سیاست کی ماہرت رکھیں نہ رکھیں لیکن سیاسی شعوریت کا چرچا رکھتے ہیں چنانچہ مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ سیاست سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں پاکستان میں نیوز چینلز کی شرح سب سے زیادہ ہے اور تفریح چینلز عمو ماً خسارے کا شکار ہیں، یہ حالت سمندرپار پاکستانیوں کی بھی ہے کہ وہ تفریحی پروگراموں کی بہ نسبت خبری چینلز زیادہ دیکھتے ہیں جبکہ دیگر ممالک کے باشندوں کا مزاج اس معاملے میںکم ازکم مخصوصانہ ہے، تاہم نیوز چینلز کے ناظرین کی تعداد شمار میں بہت نیچے ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستانیوں میں وطن کی ہوک بہت زیادہ ہے اور وہ ہمہ وقت شعوری اور غیرشعوری طور پر اپنے وطن سے جڑے رہنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک نفسیاتی پہلو یہ بھی ہے کہ جب سے پاکستان قائم ہوا ہے تب سے اس کے ذمہ داروں نے چاہے ان میں سیاستدان ہوں یا کوئی دوسرے وارثین بنے بیٹھے ہوں انہوں نے اب تک پاکستان کیلئے کسی شعبے میں مستقل مزاجی کا مظاہرہ نہیںکیا، نہ ضرورت کے مطابق منصوبہ بندی کی گئی بلکہ سیاسی، معاشی، اقتصادی، ثقافتی، شعوری، دماغی، عقلی اور بے عقلی کے گھن چکروں میں اُلجھائے رکھا اور ہیرپھیر ہی ہوتا رہا اور ایک سے ایک نئی منطق روبہ عمل لائی جاتی رہی ہے جس سے قوم میں جذبہ بے یقینی اس قدر عود کر گیا ہے کہ وہ ہر لمحہ اس دامن گیری میں رہتے ہیں کہ اب کیا ہو گیا، یہ اب کیا ہو رہا ہے، کہاں کیا ہو رہا ہے، کون کیا کر رہا ہے، ان کو ایسے بھنور میں گھوما کر رکھ دیا ہے کہ ان کو نہ تو علم وعرفان کا اعادہ رہا نہ ضرورت گمان رہی ہے، صرف یہ ہی فکر فردا رہ گئی کہ اب کیا ہوا یا اب کیا ہوگا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا ہو کر رہ گیا، اسی بے سوچی سمجھی میں ہر شعبہ زندگی زوال بوس ہوتا جارہا ہے، دور کی بات کیا کریں، حال میں میں وزیرشہر ی ہوابازی نے عقل سلیم کے استعمال سے عاری ہو کر کہہ ڈالا کہ پاکستان کا ماضی کا بہترین ادارہ پی آئی اے یکایک زمین بوس ہوگیا۔ جہاں اس ادارے کو اربوں روپے کا جھٹکا لگا وہاں پاکستان کی جو سبکی ہوئی وہ بھی الگ دردبھری داستان ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہر تباہی وبربادی کا الزام ہنوز سابقہ حکمرانوں کو دیتے ہیں، یوں وہ اپنی دوسالہ کارکردگی سے جان چھڑانے کا گمان تو کرلیتے ہیں مگر خدا لگتی بات تو یہ ہے کہ وہ کہتے سچ ہی ہیں کیونکہ ان کا یہ جملہ سر آنکھوں پر کہ ساری تباہی سابق حکمرانوں نے ہی مچائی ہے، یہ شہری ہوابازی کے وزیر باتدبیر غلام سرور بھی تو سابق حکمرانوں کے صف کے عبادت گزار ہیں۔ پی پی، مشرف وغیرہ سبھی تو ان سے مستفید ہوتے رہے ہیں، جو ادارہ برسہابرسں کی جدوجہد سے عالم شباب کے روپ میں کھڑا ہوا تھا وہ صرف زبان کے دو بول سے ہی ڈھے گیا، اگر موجودہ حکومت کی ہیئت دیکھی جائے تو یہ صاف پتہ لگتا ہے کہ نئے پاکستان کی تعمیر کا خواب محض دکھایا نہیں گیا تھا بلکہ اس کیلئے پوری منصوبہ بندی ہوئی ہے، پھر کیسے الزام دیا جاسکتا ہے کہ خان صاحب نے عوام کو نئے پاکستان کا محض سبزباغ ہی دکھایا تھا۔ تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ خواب کوئی دیکھتا ہے اس کی تعبیر کوئی اور کرتا ہے، اپنے مرشد کا خواب اب پورا ہوتو رہا ہے، مشیروں، ماہر ین، معاون خصوصی کے روپ میں منتخب عوام سے کہیں زیادہ غیرمنتخب ٹیکنوکریٹ لاکے بٹھا دئیے گئے تو ہیں پھر کوئی کیسے کہتا ہے کہ جو کہا تھا وہ کیا نہیں۔ سعادت مندی تو اسی کا نام ہے کہ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلا جائے، چاہے بزرگ پس پردہ ہوں یا پردہ کر گئے ہوں، اب ناقدین کا کیا، ان کو بیٹھے بیٹھے انگشت نمائی ہی تو کرنا آتی ہے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر ذکر وبیان کا اپنا مقام ہوتا ہے، مثلاً اس کی پرکھ الفاظ کی ادائیگی نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا مقام محمود ہوا کرتا ہے، عوام کے سامنے منج سجا کر اُچھل کود کرنا، حریف کو الفاظ کے باؤنس مارنا، عوام کو سبزباغ کی سیر کرانا، یہ سب تو عوام کے جوش وجذبہ کی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ہوتا ہے اور اس کا مقام یہ ہی منج ہے اس سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اسی طرح پریس کانفرنس کے ذریعے قوم تک پیغام رسانی کا مقام الگ حیثیت کا حامل ہوتا ہے، اس کا ذکر کیا معنی رکھتا ہے، ایسے حوالے صرف دل جلے دیتے ہیں یا دل جلانے کیلئے دئیے جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ دنیا میں سب سے زیادہ اہم ترین اور مضبوط ادارہ ہوتا ہے چنانچہ جہاں کہیں بھی یہ ادارہ مضبوط ہے وہاں ترقی، خوشحالی اور تحفظ حقوق کا اعلیٰ معیار قائم ہے چاہے حکومت کا نام کچھ ہی ہو مثلاً امریکا میں صدارتی نظام ہے مگر وہاں کسی بھی وزیر کی تقرری پارلیمنٹ کی منشاء کے بغیر نہیں ہو سکتی، نہ وہاں کوئی کالا دھن سفید وچٹا کر سکتا ہے کیونکہ پارلیمنٹ ایسے لتے نہیں پلا کرتی۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام سے ہٹ کر جتنے بھی نظام آئے ہیں وہ سب آمروں کی پیداوار رہے ہیں مگر آمروں کو بھی تحفظ نہیں مل سکا ہے۔ پاکستان کا پہلا آمر سکندرمرزا تھا اس کے اقتدار کی ڈولی جس طرح اُٹھی وہ سب سامنے ہے، سکندر مرزا سے مشرف تک کیا ہوا، ملک کی چولیں کس قدر ہلیں، یہ پوری سچائی تاریخ کے پیرہن میں محفوظ وملفوف ہے، اب نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے کالادھن کو سفید کرنے کیلئے نیک نیتی کا اعلان کیا گیا ہے (بقیہ: صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب