5 132

ہم سے پوچھو مزاج بارش کا

پرانے لوگ انگریزی، شمسی یا عیسوی کیلنڈر کے ساتویں مہینے یعنی جولائی کی پہلی تاریخ کو ساون کی آمدآمد کی اطلاع قرار دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ساون کی ‘پکھ’ پڑ چکی ہے یعنی موسم میں ساون کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ ہر سال ساون کی پکھ اگر جولائی کے مہینے کی پہلی تاریخ کو پڑتی ہے تو ساون خود جولائی کے وسط یعنی پندرہ جولائی تک آدھمکتا ہے۔ یہ آدھمکنے کا لفظ بھی بڑا عجیب ہے، ہر اس بندے یا مہمان کے بار ے میں کہا جاتا ہے جو مہمان کم اور بلائے جان زیادہ ہو۔ پشاور والے ساون رت یا ساون کے مہینے کو ‘پشاکال’ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اس مہینے کے دوران اہالیان پشاور پسینے سے شرابور نظر آتے ہیں۔ اگر ساون کے مہینے میں ہوا چلنا بند ہوجائے تو جینا محال ہوجاتا ہے، ایسے میں بجلی کی بندش یا لوڈشیڈنگ، قیامت بن کر ٹوٹ پڑتی ہے۔ پر سچ تو یہ بھی ہے کہ لوگ اس عذاب کو سہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ پسینہ خشک نہ ہونے کی وجہ ہوا میں نمی کی مقدار ہے جس میں اس قدر اضافہ ہوجاتا ہے کہ اس میں پسینہ خشک کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ نہ صرف جسم پر آیا ہوا پسینہ خشک نہیں ہوپاتا بلکہ ہر وہ چیز اتنی آسانی سے خشک نہیں ہو پاتی جو کسی وجہ سے گیلی ہوچکی ہو۔ ہوا میں نمی کی مقدار میں بے پناہ اضافہ کی وجہ سینکڑوں اور ہزاروں میلوں کی مسافت طے کرکے آنے والے وہ بادل ہوتے ہیں جنہیں مون سون کی ہوائیں سطح سمندر سے نمی اور بھاپ لیکر خشکی کا سفر اختیار کیا ہوتا ہے۔ یہ ہوائیں فضاؤں میں سمندروں کی سوغات لیکر اُٹھتی ہیں اور دور دیسوں میں پہنچنے کے بعد گھنگور گھٹاؤں اور کالے بادلوں کا روپ اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ بادل جہاں برستے ہیں وہاں کے لوگ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ انکے برسنے سے ہاڑ کی گرمی کا زور ٹوٹنے لگتا ہے،ساون کے مہینے کو رومانوی مہینہ سمجھتے ہیں
ہجر میں یوں بہتے ہیں آنسو
جیسے رم جھم برسے ساون
یہ اور اس قسم کے بہت سارے اشعار اور گیت ساون رت کے دوران گانے گنگنانے، دل لبھانے اور آنسو بہانے کیلئے لکھے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ساون رت میں باغوں میں جھولے پڑتے ہیں اور لوگ دل کھول کر ساون رت کی خوشیاں مناتے ہیں لیکن سچ تو یہ بھی ہے کہ ساون رت پشاور اور گرد ونواح تک پہنچتے پہنچتے باسی ہوجاتی ہے۔ بازاروں میں چلتے پھرتے لوگ اپنے اندر سے پھوٹنے والے پسینے سے سر سے پاؤں تلک شرابور ہو جاتے ہیں، جس کو دیکھو گیلے کپڑے پہنے زندگی کے معمولات سے نباہ کرتا نظر آتا ہے۔ ہوا میں نمی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کمپیوٹر، پرنٹر، فوٹوسٹیٹ مشینوں اور الیکٹرونک کے دیگر حسا س آلات اور مشینری کی کارکردگی میں فرق پڑنے لگتا ہے اور بعض کو تو خراب ہونے میں دیر نہیں لگتی، ساون رت کے دوران فضا میں موجود سو ڈگری سنٹی گریڈ تک کھولتی نمی کا نہ صرف عام استعمال کی مشینری پر منفی اثرات پڑتے ہیں بلکہ جسم پر بھی بے حد نقصان دہ اور ناقابل برداشت اثرات مرتب ہوتے ہیں، سارے جسم پر پت دانے اور پھنسیاں نکل آتی ہیں، جلدی بیماریاں عام ہوجاتی ہیں اور ڈاکٹر حکیموں کی دکانوں پر ساون کے عذاب سے متاثر ہونے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ساون کے موسم میں پشاور اور گرد ونواح کے لوگ ساون کی بارش کے دوران یا بارش کے برسنے کے بعد آسمان سے اُترتے ساون کے کیڑوں اور پتنگوں کے لشکر جرار کا بھی سامنا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب چیونٹی کی موت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں، ہمارا مشاہدہ ہے کہ چیونٹی کی موت ساون کے موسم کی بارشوں کے دوران ہی آتی ہے اور اس کے پر اس ہی موسم میں نکلتے ہیں، تب وہ یعنی چیونٹی اور اس کا قریب دار مکوڑا چیونٹی اور مکوڑے نہیں رہتے، ساون کے موسم میں ہر کس وناکس کے ناک میں دم کرتے ساون کے کیڑے بنکر اُڑنے لگتے ہیں، پتنگے کا شمع پر جل مرنے کا رومانوی کھیل اس ہی مہینے کھیلا جاتا رہا ہوگا، لیکن اب پتنگے اور اس کے قبیلے کے لکھوکھا افراد کو مرنے کیلئے شمع کی ضرورت نہیں پڑتی، وہ بجلی کی بلبوں اور انرجی سیورز ہی پر اپنی جاں نثار کرنے کیلئے اُڑتے پھرتے ہیں لیکن اس وقت
بہت نکلے مرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
کے مصداق وہ لوڈشیڈنگ کا عذاب سہتے ہوئے متاع جاں کو ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں، لوڈشیڈنگ گزیدہ لوگوں کی طرح جو ہاتھوں میں بجلی کے بل اُٹھائے اور بلک بلک کر فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ بجلی تو آتی نہیں اور بل آدھمکتے ہیں، دن دیہاڑے ہمارے خون پسینہ کی اس کمائی کو لوٹنے، ساون کے ستائے لوگ جب اپنی فریاد لیکر اپنے چہرے پر قوم کی تقدیر بدلنے والوں کا ماسک سجائے رہبروں کے ہاں پہنچتے ہیں تو وہ ان کی فریاد سننے کی بجائے اے سی لگے کمروں میں جاچھپتے ہیں، ساون رُت کو برسات کا موسم بھی کہا جاتا ہے لیکن نجانے کیوں ہمیں تو یہ آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں کی برسات کا موسم نظر آنے لگتا ہے اور ہم بے اختیار ہوکر کہنے لگتے ہیں
ہم سے پوچھو مزاج بارش کا
ہم جو کچے مکان والے ہیں

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے