3 134

اب یہاں کوئی نہیں

افلاطون نے کہا تھا ہم اس بچے کو بہت آسانی سے معاف کر سکتے ہیں جو تاریکی سے خوفزدہ ہے لیکن زندگی کا اصل المیہ یہ ہے کہ لوگ روشنی سے خوفزدہ ہیں۔ اس کی اس بات کو سمجھنے کیلئے بہت محنت کی ضرورت نہیں۔ آج پاکستان کو دیکھ کر یہ بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس حکومت کو ووٹ دیئے، اب ایک عجب پریشانی، پشیمانی اور سراسیمگی کا شکار ہیں۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر انہیں کس بات کا افسوس زیادہ ہونا چاہئے، اس بات کا کہ جن لوگوں پر اعتماد کر کے انہیں ووٹ دیکر کامیاب کیا وہ اتنے اہل نہ تھے کہ گزشتہ بدعنوان حکومتوں کی زہریلی جڑوں کا مقابلہ کر سکتے۔ ان حکمرانوں نے اپنی بدعنوانی کے کتنے زہریلے سانپ اس نظام میں چھوڑ رکھے ہیں، ان کا مقابلہ کیسے کرنا ہے اس کی تیاری اس حکومت کو اپنی حکومت بنانے سے پہلے کرنی چاہئے تھی۔ زہر کا تریاق پہلے سے جیب میں ہوتا لیکن انہوں نے اس مصیبت کو بہت ہلکا سمجھا، اس بوجھ کا درست اندازہ نہ کیا اور اب یہ حال ہے کہ خود ان کا جسم اس زہر سے نیلا ہوچکا ہے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اس زہر کے زیراثر اول فول بک رہے ہیں، انہیں کیسے کیسے وہم ہوتے ہیں اور وہ ہذیان بولنے لگتے ہیں۔ ان کی اس پریشانی اور بیماری نے ان لوگوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے جو ان پر اعتماد کئے بیٹھے تھے۔ اب جب یہ کہتے ہیں کہ ہم تو سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں، اس حکومت کی مدت تو کیا ہم اگلی بار بھی حکومت کی سند پر براجمان ہوں گے تو ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔ پھر وہ نظر اُٹھا کر ان کی جانب دیکھتے ہیں جو اس ساری بیماری کے اصل ذمہ دار ہیں، جن کی ریشہ دوانیاں ہیں، جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں، جو ایسے بدعنوان تھے کہ انہیں دیکھنے سے بلاؤں کا خیال آتا تھا، جو ناخن پھیلائے، دانت نکوسے مسلسل اس ملک کے جسم کو بھنبھوڑ رہے تھے اور جس سے نجات کی خواہش میں اس حکومت کو چنا تھا جس کا عالم یہ ہے کہ گویا لکڑی کی تلوار لئے کوئی بچہ تھا، جو گھر کے آنگن میں تلوار گھماتا رہا، فرضی دشمنوں سے لڑتا رہا اور خود کو ماہر سمجھ بیٹھا۔ اب وہ میدان میں اُترا ہے تو یہ بلائیں اسلئے چیتھڑے اُڑا رہی ہیں اور وہ جو اس پر تکیہ کئے بیٹھے تھے انتہائی خوفزدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حکومت کی ناکامی اور مسلسل ناکامی کے بعد آخر ہمارے پاس کو نسا راستہ کھلاہے؟ کونسا در ہے جس پر دستک دینے کے نتیجے میں ہمدرد چہرہ دکھائی دینے کی اُمید ہے۔ کونسی رسی ہلانے سے زنجیرعدل ہلنے کی اُمید ہے۔ وہ لوگ جو آج اس حکومت کے ناکام ہونے کے جھنڈے لہراتے نظر آتے ہیں وہی تو ہیں جو ہمیں لوٹتے رہے ہیں۔ کیا ہم ان پر دوبارہ اعتبار کرنے کی ہمت پیدا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم نوازشریف اور شہباز شریف کی لوٹ مار سے واقف نہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ موٹروے سے لیکر گزشتہ حکومت کے آخر دن تک کہاں کہاں اس ملک کے جسم کو چرکے نہیں لگائے گئے۔ کیا ہم ان کے مصاحبوں کے کارناموں سے واقف نہیں۔ کس کس نے اس ملک کو کیا کیا زک پہنچائی اور اس کا نقصان اس قوم نے کیسے بھرا۔ آصف علی زرداری کے دورحکومت میں بدعنوانی کا کیا عالم تھا کہ لوگوں کو سانس آنا مشکل ہوگیا تھا۔ اب بلاول بھٹو سے کوئی اُمید کیسے وابستہ کی جائے جبکہ بلاول بھٹو خود امورحکومت سے نابلد ہیں اور ان کی ٹیم میں تو آج بھی وہی لوگ شامل ہیں جن کیلئے بدعنوانی روز کا دستور ہے۔ جن کیلئے میرٹ میں کبھی کوئی حکمت پوشیدہ ہی نہیں رہی۔ ان لوگوں سے کس طرح اس ملک کے لوگ کل کی کسی بہتری کی اُمید وابستہ کریں گے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ حکومت ناکام ہورہی ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ اس حکومت کی مکمل ناکامی کی صورت میں کیا اس ملک اور اس کے لوگوں کے پاس کوئی اور آپشن موجود ہے۔ اس سوال کے جواب میں جو گہرا سناٹا ہے جو بہرا کر دینے والی خاموشی ہے اور جو ہمت توڑ دینے والا سکوت ہے، وہ ہمیں حواس باختہ کر دیتا ہے۔ اس حکومت کے ناکارہ ہونے کا کوئی ثبوت اب ہمیں نہیں چاہئے کیونکہ سارے ثبوت تو روزروشن کی طرح عیاں ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ان کی ناکامی کا ہی فتور ہے کہ یہ ایک دوسرے پر پل پڑتے ہیں اور خود بھی اپنے اس پاگل پن کو سمجھ نہیں پاتے، کوئی ان سے پوچھے کہ اس قوم کی حالت پر بھی کوئی غور کیا ہے جن کے اب سارے راستے مسدود ہیں۔ جنہوں نے اپنے ترکش کا آخری تیر بھی چلالیا، جنہوں نے اب اُمید کی ہر شمع روشن کر کے دیکھ لی لیکن راستے کا اندھیرا کوئی کرن پاٹ نہ سکی، جن کیلئے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ کوئی چراغ اب جل اُٹھنے کی اُمید بھی کسی دور دراز غار میں موجود نہیں۔ اب کسی طوطے میں جن کی جان نہیں، اب کسی مسیحا کا آسرا نہیں، وہ مسیحا جو ان کے سامنے موجود تھا جس سے وابستہ ساری خواہشات تھیں، راستے تھے اب انہی کے سامنے منہ کے بل گرا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سب کا کوئی حل ہے؟ تو ایک سناٹے سے سائیں سائیں کی آواز آتی ہے اور ایک خوفناک خاموشی کانوں میں سرگوشی کرتی ہے، نہیں اب کوئی نہیں، اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔ روح کانپ اُٹھتی ہے، کیا واقعی اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام