5 134

اس زندگی میں اب کوئی کیا،کیاکِیا کرے

بات سے بات نکلتی ہی چلی جاتی ہے،بزرگوں نے کیا خوب بات کی ہے کہ دھاگے کو دوہرا کرنے کا عمل کروگے تو اس کا سائز کم ہوتا جائے گا، یعنی بار بار دوہراکرو تو لمبا دھاگہ بھی ہر بار نصف ہو کر بالآخر انتہائی چھوٹے سائز میں ڈھل جائے گا جبکہ بات کو دوہرا کروگے تو بات مزید طول اختیار کرتی چلی جائے گی، یوں بقول شاعر طول شب فراق کی بھی اس کے آگے کیا حیثیت ہوگی۔ اصل مدعا یہ ہے کہ وہ جو بات ہم نے روسی برتنوں سے شروع کی تھی اس کے اندر سے کئی دوسری باتیں سامنے آتی رہیں اور اگر آپ کو یاد ہو تو ایک موقع پر میں نے اپنے والد صاحب کے کاروبار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اپنی دکان پر نہ صرف روسی برتنوں بلکہ قراقلی ٹوپیوں کی فروخت کا بھی تذکرہ کیا تھا، چونکہ قراقلی ٹوپیوں کی روایت بھی روس اور اس کے ملحقہ وسط ایشیائی ریاستوں سے ہی چلی آرہی ہے اور ان ریاستوں میں بھی کچھ خاندان یا قبیلے اس کاروبار سے وابستہ رہے ہیں، جن کا کام ہی ایسے بھیڑ بکریوں کی پرداخت ہے جو قراقلی ٹوپیوں کیلئے خام مال یعنی ایک خاص نسل کی بھیڑ بکریوں کے جنم لینے والے بچوں کو پیدا ہوتے ہی ذبح کر کے ان کی کھال جسے پوست کہتے ہیں حاصل کر لیتے ہیں اور انہیں خاص طریقوں سے سکھا کر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں، ان میں اعلیٰ ترین اور مہنگے وہ کھال ہوتے ہیں جو زیادہ گھنگریالے ہوں، یہاں ایک اور بات کی بھی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ان بھیڑ بکریوں میں سے جو بڑی عمر کی ہوں ان کی کھالوں سے مقامی طور پر وہاں کی شدید سردی سے بچنے اور برفانی ہوائوں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرنے کیلئے جو واسکٹ نما لباس بنایا جاتا ہے اسے مقامی طور پر پوستین کہا جاتا ہے یعنی پوست سے بنا ہوا لباس، یہ لباس اکثر ان انگریزی فلموں میں دکھایا گیا ہے جو چنگیز خان، ہلاکوخان اور دوسرے جنگجو سرداروں کی کہانیوں پر مبنی ہیں یقینا آپ نے دیکھا ہوگا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھیڑ بکریوں کی کھالوں سے واسکٹ اور قراقلی ٹوپیوں کا یہ رواج صدیوں سے قائم ہے اور روایتی طور پر یہ سلسلہ بھی وسط ایشیائی ریاستوں سے چلا ہے، تاہم جب متحدہ ہندوستان کے زمانے سے تجارتی قافلے پشاور سے ہوتے ہوئے سمرقند، ترکمانستان، آزربائیجان وغیرہ آتے جاتے تھے تو قراقلی ٹوپیوں کے وہاں سے ہندوستان بھر میں درآمد کا سلسلہ بھی شروع ہوا، اس ضمن میں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ان ٹوپیوں کے بنانے میں جدت اور خوبصورتی ہمارے ہاں کے کاریگر نے پیداکی،وگرنہ محولہ انگریزی فلموں کو دیکھتے ہوئے یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ خاص نسل کی بھیڑبکریاں پائی جاتی ہیں وہاں کی بنی ہوئی ٹوپیاں نسبتاً بھدی ہوتی تھیں، ان ٹوپیوں کے بنانے میں بھی خاص مہارت درکار ہوتی تھی، چونکہ والد صاحب کی دکان پر کاریگر کو ان ٹوپیوں کیلئے پوست (کھال) کو کاٹنے سے لیکر انہیں ایک خاص انداز میں سلائی مشین کے ذریعے سلائی کرنے ان کیلئے ٹوپی کی اندرونی استر بنانے کا سارا پراسیس دیکھتا رہا ہوں اس لئے مجھے علم ہے کہ یہ کتنا مشکل فن ہے۔ ایک تو ہر گاہک کے سر (ماتھے اور سرکی پشت) کا سائز لیکر نہ صرف پوست کی کٹنگ کرنا، پھر اسی سائز کی لکڑی کے قالب کے مطابق پہلے پٹ سن کے کپڑے کو کاٹ کر اسے قالب پر چڑھا کر اس پرسریش کی تہیں چڑھانا اور سوکھنے پر اس کیلئے خاص ریشمی کپڑے کو بھی اسی سائز میں کاٹ کر سینے کے بعد پٹ سن اور ساٹن نما کپڑے کو دوبارہ سلائی کر کے جوڑنا اور پھر پوست سے بنی ہوئی ٹوپی کو ان استروں کے سات سی کر مطلوبہ سائز کے مطابق اس سے ٹوپی بنانا، یہ سب ماہر کاریگروں کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، تب تو پٹ سن والا کپڑا سابق مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) سے آکر آسانی سے مل جاتا تھا، اب نہیں معلوم کہ پٹ سن والے کپڑے کی جگہ کونسا میٹریل استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سب فکرمعاش کے معاملات ہیں اور بقول شخصے روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر والی بات ہے جبکہ مرزا رفیع سودانے بھی تو کہا تھا کہ
”فکر معاش، عشق بتاں، یادرفتگاں”
اس زندگی میں اب کوئی کیا، کیا کِیا کرے
قراقلی ٹوپی کئی طرز سے بنائی جاتی ہے اگر آپ نے مرزا غالب کی ایک تصویر دیکھی ہے تو جس لمبوترے طرز کی ٹوپی انہوں نے سر پر سجائی ہے، قدیم دور میں ایسی ہی شکل کی ٹوپیاں ہوتی تھیں، مگر پشاور میں ان کی شکلیں کچھ اور بن گئیں۔ عام طور پر ان ٹوپیوں کی اونچائی درمیانے درجے کی اور سامنے انہیں ایک خاص انداز میں لاکر ان کی عمومی گولائی (سرکل) کو سلامی نما بنایا جاتا ہے۔ بعض لوگ ٹوپیاں تو اسی شکل کی بنواتے ہیں البتہ سامنے کی دیوار اونچی اور پشت کی جانب سامنے کی نسبت سائز چھوٹا رکھتے ہیں، ان میں سے مختلف قسم کی یہ سادہ ٹوپیاں قائدملت لیاقت علی خان شہید، سابق صدر ایوب خان، والئی سوات پرنس جہانزیب، میاں گل اورنگزیب، خان عبدالقیوم خان کے علاوہ پشاور کے دیگر زعماء اسی طرز کی قراقلی ٹوپیاں استعمال کرتے رہے ہیں، (باقی صفحہ7)

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں