2 230

بیک وقت تین متوازی تعلیمی نظام

سرکاری سکولوں میں تعلیمی سال کے آغاز سے اساتذہ کو ایک کلینڈر کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ کس تاریخ تک کتنے موضوعات مکمل کرنے ہیں۔ سلیبس ترتیب دینے کی ذمے داری اساتذہ پر عائد نہیں ہوتی، کچھ سات آٹھ سال کے عرصے سے اب سرکاری اداروں میں اساتذہ کی بھرتی کے معاملات میں ایک مثبت تبدیلی سامنے آئی ہے۔ اب ایم ایس سی، ایم فل تک پڑھے ہوئے افراد بھی پرائمری سکولوں میں ٹیچنگ کو برا نہیں سمجھتے، اپنی تعلیم ساتھ جاری رکھتے ہیں اور گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہر دو سال یا سال بعد ٹریننگ کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ صرف تب ہی ممکن ہے اگر اُستاد اس میں خود دلچسپی لے ورنہ صرف حاضری لگانے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔
پرائمری سکولوں میں لیبارٹری، کمپیوٹر لیب یا کوئی بھی ٹیکنیکل سپورٹ بمشکل دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں میں رٹہ کلچر، تجرباتی تعلیم کی نسبت زیادہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک بچے کی ذہنی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ خود ایسی تخلیقی سرگرمیوں سے سیکھتا ہے یا نہیں کیونکہ سرکار کی طرف سے بنائے گئے نظام تعلیم میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق یہ سہولیات فی الوقت میسر نہیں ہیں۔
اسی طرح مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ طلبا جن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہوتے بلکہ کچھ بچے تو خود مزدوری بھی کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں پڑھنے کا جذبہ لائق تحسین ہے۔ اب اگر اساتذہ کی بات کی جائے تو پڑھائی کیساتھ انہیں گھروں سے بچوں کو منتیں کر کے خود پڑھنے کیلئے لانا پڑتا ہے تاکہ حاضری کا تناسب قائم رہے اور فنڈز کی آس بنی رہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات پولیو ورکرز کیساتھ ڈیوٹی نبھانے کے علاہ غسل خانوں کی صفائی سے لیکر درختوں کی کٹائی کے معاملات بھی اساتذہ کو خود سنبھالنے پڑتے ہیں۔
طلبا کی حاضری کم ہونا یا تعلیم سے دلچسپی کم ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہی دہائیوں پرانا نصاب اور طریقہ تدریس اب تک جاری ہے جو طلبا کی توجہ حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز ٹیکنالوجی اور تجرباتی اور نظریاتی تعلیم شاید اس نظام کو بہتر بنانے میں مدد دے۔ ان تمام تکالیف اور خامیوں کے باوجود ہر سال بورڈ کے امتحانات میں کچھ ناموں کا روشن ہونا ایک خوشگوار تاثر دیتا ہے کہ محنت اپنا رنگ لاتی ہے۔
جہاں دوسرے درجے پر آکر مدارس کے نظام پر ایک نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں سینکڑوں کی تعداد میں مدارس نے ہزاروں طلبا کو مفت تعلیم دیکر ریاست کا کافی سارا بوجھ ہلکا کر رکھا ہے۔ دینی مدارس میں تین طرح کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک حفظ قرآن، جس کا آغاز قائدے اور ناظرہ سے ہوتا ہے ۔ دوم تجوید، اس کی اپنی مخصوص کتب ہیں، جو درجہ بدرجہ مشکل اسباق کی تلاوت و ترتیل میں مدد دیتی ہیں۔ سوئم عالم کورس میں نحو، منطق، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث اور تفاسیر پڑھائی جاتی ہیں۔
مدارس میں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے رائج سلیبس ہی پڑھایا جاتا ہے۔ اساتذہ کی تربیت یا تو تبلیغی چلے کے زمرے میں ہو جاتی ہے یا پھر وہ تصوف سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ نیز مدارس اپنے ذہین طلبا کو ہی بطور اُستاد پڑھانے کو فوقیت دیتے ہیں۔ مدارس میں طلبا کی کامیابی کی ضمانت ان کی یادداشت پر ہے، تخلیقی سرگرمیاں یا تجرباتی مشاہدے کا ذکر کم ہی سامنے آتا ہے۔ جن مدارس کے پاس بہتر فنڈز ہیں، انہوں نے کمپیوٹر کی تعلیم کیساتھ ساتھ باقاعدہ سکول کی تعلیم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
مدارس کے فارغ التحصیل طلبا زیادہ تر واپس اسی ذریعہ معاش سے جڑتے ہیں۔ یہ اب جاننے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ اگر مدارس ریاست کا اتنا بوجھ بٹا رہے ہیں تو ریاست کا فرض ہے کہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نصاب اور تکنیکی معاونت کیلئے مدارس کی مدد کرے تاکہ ان متوازی تعلیمی اداروں میں خلیج کم ہو اور ایک ادارے کا بچہ دوسرے ادارے میں داخل ہوتے ہوئے خود کو کمتر یا حقیر محسوس نہ کرے۔ ابھی کچھ دن پہلے مدرسے کے طالبعلم کی سی ایس ایس کی تیاری کی خبر آئی جو ایک مثبت تبدیلی ہے۔
جہاں اچھے نجی تعلیمی اداروں کے دروازے تعلیمی سال کے آغاز سے ٹھیک پندرہ دن یا مہینہ پہلے ہی سکول ٹیچرز کیلئے کھول دئیے جاتے ہیں۔ ابتدائی ٹریننگز اور ورکشاپس کروائی جاتی ہیں، نصاب ہر سال تبدیل ہوتا ہے لیکن یہ تبدیلی دو تین موضوعات سے زیادہ نہیں ہوتی، فی کتاب پرائیویٹ ٹیچرز کو یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ اپنا سکیم آف ورک اور سلیبس خود ڈیزائین کریں۔ اگر ہر بچہ ایک ہی طریقہ کار سے نہیں پڑھ سکتا تو ہر اُستاد بھی ایک ہی طریقہ کار سے ایک ہی سبق نہیں پڑھا سکتا۔
پرائیویٹ اداروں کی ماہانہ فیس ڈھائی ہزار ماہانہ سے لیکر تیس ہزار ماہانہ فی بچہ بھی ہو سکتی ہے یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ کا بچہ کہاں پڑھتا ہے۔
(باقی صفحہ 7)

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت