p613 60

شہری ہوابازی کی بعد از خرابی بسیاروضاحت

پاکستان میں وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کے پائلٹس کے لائسنس جعلی یا مشتبہ ہونے کے بیان کے بعد پہلی بار پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کاجو مؤقف سامنے آیا ہے اس میں حیران کن طور ہر اتھارٹی نے پائلٹس کو جاری کردہ اپنے تمام لائسنسز کو درست قرار دیا ہے۔ ڈی جی سول ایوی ایشن کے اس خط کے بعد معاملے نے ایک نیا رخ لیا ہے، اب تک وفاقی وزیر غلام سرور خان کی جانب سے اس خط پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ شہری ہوابازی کے وفاقی وزیر کے غیرذمہ دارانہ بیان کے بعد دنیا بھر میں پاکستانی پائلٹوں اور ملکی فضائی کمپنی کے حوالے سے خدشات اور عدم اعتماد یا پھر مسافروں کی سلامتی اور تحفظ کی خاطر جو اقدامات کئے گئے ان کا ازالہ سول ایوی ایشن کے اس خط سے ممکن نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جتنی بڑی تعداد میں پائلٹوں کے لائیسنز کے غیر مستند ہونے کا کہا گیا وہ ممکن ہی نہ تھا اسلئے کہ اتنے بڑے پیمانے پر جعلسازی اور جعلی اسناد پر پائلٹوں کی بھرتی ممکن ہی نہ تھی۔ وفاقی وزیر نے جو غیر ذمہ دارانہ بیان دیا تھا اس کا خمیازہ پائلٹ ابھی تک بھگت رہے ہیں اور تادیر بھگتتے رہیں گے۔ ریگولیٹری ادارے نے اس بیان کے ذریعے بیرون ملک کام کرنے والے پائلٹوں کے روزگار کے تحفظ کی کوشش ضرور کی ہے لیکن سول ایوی ایشن اتھارٹی پی آئی اے اور پاکستانی پائلٹوں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچاہے اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ شہری ہوا بازی کے وزیر کے زیرانتظام ادارہ اس کے بیان کی تردید کر رہا ہے، غیرذمہ دارانہ بیان سے عدم تحفظ وغیر یقینی کی فضا پیدا ہوئی لیکن وفاقی وزیر سے وزیراعظم نے وضاحت واستفسار کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نہ ہی وفاقی وزیر نے اپنے بیان کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی۔ اس قسم کے غیرذمہ دارانہ بیان کو خود متعلقہ اتھارٹی کی جانب سے واضح طور پر غلط قرار دیئے جانے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری ہوابازی کی وزارت ایسے کسی اہل فرد کے سپرد کی جائے جسے ہوابازی کی شدبد حاصل ہو، جو کھوئے ہوئے وقار کی بحالی اور عالمی اعتماد کا باعث بننے والے اقدامات کرنے کے قابل ہو۔ توقع کی جانی چاہئے کہ بلا سوچے سمجھے بیان بازی سے جو نقصانات برداشت کرنے پڑے، حکومت اب اُن کے اثرات زائل کرنے کے سنجیدہ اقدامات کر پائے گی۔
ممکنہ آٹا بحران کا بروقت تدارک کیا جائے
پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)کے رہنما قمر زمان کائرہ کا یہ بیان فوری توجہ کا حامل ہے جس کے مطابق خیبرپختونخوا کے راستے گندم اسمگل ہورہی ہے اور ملک میں ایک مرتبہ پھر بحران کھڑا ہونے والا ہے۔ پی پی پی کے رہنماکا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ان تمام بحرانوں کو دوبارہ زندہ کردیا جو ختم ہوچکے تھے، آج حکومت کو چینی، آٹا، تیل، معاشی قرضوں کی ادائیگی سمیت دیگر بحرانوں کا سامنا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ عدالتوں کے نوٹس کے باوجود بھی چینی کی قیمت کم نہیں ہوئی اور گندم کا بحران ایک ایسے وقت کھڑا ہو رہا ہے جب ابھی گندم کی فصل کھیتوں سے منڈیوں تک پوری طرح پہنچائی ہی نہیں گئی ہے۔ قمر زمان کائرہ کے اس بیان کو حزب مخالف کے ایک مخالف کی تنقید گردان کر نظرانداز اسلئے نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی اور حال ہی میں مختلف مواقع پر خیبرپختونخوا میں شہریوں کو آٹے کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور آٹے کی قلت کا سامنا رہا ہے اور اس حوالے سے یہ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے کے مصداق کا حامل معاملہ ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے حال ہی میں آٹا کی افغانستان سمگلنگ کی روک تھام کیلئے خاصے سنجیدہ اقدامات کا فیصلہ تو کرلیا گیا تھا لیکن عملدرآمد کی حقیقی صورتحال کیا ہے اس کا پوری طرح سے علم نہیں البتہ آٹا کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھا جائے تو آٹا سمگل ہونے میں شک کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ افغانستان کو آٹا سمگلنگ وہ منافع بخش عمل ہے جس میں بڑے بڑے عناصر ملوث ہیں اور منظم طریقے سے سمگلنگ کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ صوبائی حکومت کو قمر زمان کائرہ کے بیان کے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لینا چاہئے اس کی تحقیقات ہونی چاہئے اور اگر الزام میں صداقت پائی جائے تو آٹاسمگل کرنے والے عناصر کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے۔ حکومت آٹا مارکیٹ میں آئے روزاُتار چڑھائو کے عمل کی بھی نگرانی کرے اور آٹا کی قیمتوں میں استحکام لائے نیز نانبائیوں کو روٹی کا وزن ہلکا یا روٹی کے دام بڑھانے سے روکنے کیلئے بھی منصفانہ اقدام کرے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس