p613 60

کانگو وائرس’ احتیاطی تدابیر کا خیال رکھا جائے

وطن عزیز پاکستان میں دنیا بھر میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں لوگ سنت ابراہیمی کی پیروی میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ ملک بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ بائیس لاکھ سے زائد افرادقربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ جانوروں میں کانگو وائرس کے باعث انسانوں کو منتقل ہونے والی بیماری سے ہر سال ماہرین احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں، اس سال کورونا وائرس کی صورتحال مزید احتیاط کا متقاضی معاملہ ہے۔اندریں حالات شہریوں کو کورونا اور کانگو دونوں وائرس سے احتیاط کیلئے خاص طور پر ہوشیار اور تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو اس امر سے آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ کانگو بخار جان لیوا بخار ہے جو مویشیوں کی جلد میں موجود ٹکس (چیچڑ) کی وجہ سے لگتا ہے، اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لیں تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ قربانی کے جانور کو الگ تھلگ رکھا جائے اور کم استعمال ہونے والے زیادہ سورج کی روشنی والی جگہ کو قربانی کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے کیونکہ الٹرا وائلٹ شعاعیں جراثیم کا فوری خاتمہ کرتی ہیں۔ ایک یا خاندان کے کم سے کم افراد کو جانور ذبح کرنے اور گوشت کے کام کا حصہ بننا چاہئے جبکہ انہیں ڈسپوزایبل ٹوپیاں، دستانے، ماسک، پلاسٹک ایپرن، واٹر پروف جوتے اور حفاظتی کپڑوں کا لازمی استعمال کرنا چاہئے، ان کے ناخن صاف اور کٹے ہوئے ہونے چاہئے۔ اگر ہاتھ یا بازو پر زخم یا خراش ہو تو گوشت کاٹنے اور تقسیم کے کام کا حصہ نہیں بننا چاہئے، جانوروں کے ذبح اور گوشت کی کٹائی کے بعد ہاتھوں کو دھونا لازمی ہے۔ ماہرین نے تجویز پیش کی ہے کہ فرش پر ایک بڑی اور موٹی پلاسٹک کی شیٹ پھیلا کر اس پر گوشت رکھیں، بچوں کو اس حصے سے دور رکھا جائے جہاں قربانی ہوئی ہو یا گوشت کو کاٹا گیا ہو۔ امراض کی روک تھام کیلئے ٹھوس اور سیال کچرے کو جلد ازجلد تلف کیا جائے، بڑے اور موٹے پلاسٹک بیگز کو جانور کے کچرے کو بھرنے کیلئے استعمال کیا جائے اور انہیں بعدازاں حکومت کی طے کردہ جگہوں پر پھینک دیا جائے۔ اگر قربانی کے14روز کے دوران بخار ہو جائے تو فوری طور پر طبی امداد کیلئے رجوع کیا جائے۔ مویشیوں کی آلائش کو آبادی اور سڑکوں پر نہ پھینکا جائے بلکہ انہیں محکمہ صحت کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق تلف کیا جائے۔ اس کے علاوہ گوشت کو اچھی طرح پکا کر کھایا جائے۔ جانوروں میں کانگو وائرس کی موجودگی کے خدشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سے بچنے کی تدابیر انتہائی ضروری ہیں جن پر عمل درآمد سے بیماریوں سے محفوظ رہنا ممکن ہوگا۔
متاثرین سیلاب ،امداد اور بحالی
چترال کے مختلف مقامات میں سیلاب سے مکانات، سڑکیں، پل، دکانیں، باغات اور کئی کلومیٹر روڈ کا سیلاب برد ہونے کی وجہ سے عوام کی مشکلات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ چترال میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں سڑکوں، باغات اور زرعی اراضی کی تباہی کیساتھ ساتھ پن بجلی گھروں کوتباہ کرنے کا عمل اب ہر سال کا معمول بن گیا ہے۔ گولین گول کے متاثرہ نہروں کی بحالی اور زرعی اراضی وباغات کو پانی کی فراہمی اور لوگوں کو آبنوشی کی سہولت کی عدم بحالی کی شکایات ہیں۔ چترال کی ضلعی انتظامیہ اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمہ دار اداروں کی تیاری جتنی بھی ہوتی اس موقع پر ان کا ہاتھ ملتے رہ جانا ہی تھا مگر آفت پڑنے کے بعد متاثرین کی بحالی میں جس قسم کی کوتاہیاں اور خاص طور پر بدعنوانیاں سامنے آتی ہیں اور اس سخت وقت کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے وہ ناقابل برداشت صورتحال ہے۔ حکومت کو جہاں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہاں سیلاب کو گلوبل وارمنگ کا نتیجہ قرار دیکر بری الذمہ ہونے کا عمل اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ گلوبل وارمنگ عالمی مسئلہ ضرور ہے لیکن جہاں آبادی میں چترال کا روایتی موسم معمول سے واضح فرق یعنی سرد ہوا، وہاں ایک دن دو دن کی گرمی کے باعث گلیشیر کے پھٹنے اورسیلاب کی آمد کی وجہ نہیں بلکہ گولین گول اور ریش ہائیڈرل پاور سٹیشنز کے ڈیموں کی تعمیر کے باعث گولین سے لیکر بونی زوم تک کی اس پٹی میں ڈیموں سے اُٹھنے والے بخارات کے باعث معمول سے زیادہ تیز بارشیں بھی علاقے میں ہرسال سیلاب کا باعث بن رہی ہیں جس سے آبادی کو بچانے اور متاثرین کی فوری امداد کیلئے خصوصی فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں سیلاب آنے پر صرف ریسکیو 1122 ہی کو فوری امداد اور بحالی کے کاموں میں تنہا چھوڑ نے کی بجائے سارے اداروں کو ملکر امدادی کاموں کی انجام دہی کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے