1 186

کورونا، کتابیں، بزدار حکومت

پچھلے چند ماہ (جب سے کورونا وبا نازل ہوئی ہے) سے معمولات بدل گئے ہیں، طویل ومختصر سفر بارے تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ شہر کے اندر آمدورفت کا معاملہ کبھی کبھار سودا سلف خریدنے کیلئے بازار جانے تک ہے۔ کتابیں ہیں’ اخبارات و جرائد’ ٹی وی یا سوشل میڈیا’ کورونا نے دوستوں سے بھی دور کردیا ہے۔ اس دوران جنم شہر میں چند اموات ہوئیں، کورونا اور دیگر وجوہات سے لیکن جانہیں سکا۔ کل نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا کورونا سے 13دن لڑنے کے بعد دنیا سے کوچ کرگئے۔ کورونا کے ابتدائی ایام میں مرحوم کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہوں نے اس وبا بارے روایتی جملے ادا کئے۔ چند ماہ بعد خود اسی بیماری کا شکار ہوگئے۔ پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا ملک کے چند بہترین معالجو ں اور سرجنز میں شمار ہوتے تھے۔ کوئی بے احتیاطی ہوئی یا پھر وہ اس موذی وبا بارے اپنی منطق کا رزق بن گئے جو بھی ہے اہل ملتان ایک اچھے انسان اور معالج سے محروم ہوگئے۔ قبل ازیں ملتان کی عملی سیاست کے روشن چہرے حکیم محمود خان ایڈووکیٹ بھی کورونا کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اس وبا کی آمد سے ہی ان کالموں میں تواتر کیساتھ عرض کرتے آرہا ہوں کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر نہ رکھا گیا تو خطرات بڑھنے کیساتھ اموات بھی بڑھیں گی۔ حکومت مجھ قلم مزدور کے مقابلہ میں زیادہ عقل مند نکلی، اس نے ٹیسٹوں کی شرح کم کرکے وبا کا شاندار مقابلہ کیا۔ مگر اب کہا جا رہا ہے کہ ”عید قربان” پر کورونا پھیلنے کے خطرات ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی منڈیاں شہری حدود سے دو سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر لگائی جائیں گی۔ شہروں کے اندر گھوم پھر کر جانور فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کاش کچھ اس نوعیت کے اقدامات گزشتہ عید الفطر پر بھی کرلئے جاتے۔سمارٹ لاک ڈاؤن کا سلسلہ دو درجن سے زائد شہروں میں جاری ہے۔ صوبہ پنجاب میں لاک ڈائون کے آغاز پر عائد بعض پابندیوں کو 31جولائی تک بڑھا دیاگیا ہے۔ مثلاً مارکیٹوں کے اوقات کار’ شادی ہالوں وغیرہ پر پابندی۔ بہرطور تلخ حقیقت یہ ہے کہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ شہریوں کو احتیاط کرنی چاہئے۔ کورونا سے بچائو کیلئے جاری ایس او پیز پر عمل بہت ضروری ہے، امور زندگی زندگی کیساتھ ہی ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں کی آن لائن کتب فروشی کا ایک اشتہار دیکھ کر معیشت پر 3کتابیں منگوائیں۔ کتب موصول ہوئیں تو پتہ چلا ہمارے عقل مندوں نے آن لائن کتب فروشی میں بھی فراڈ شروع کر دیا ہے۔ افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ کپڑوں’ جوتوں اور دیگر اشیاء کی آن لائن فروخت میں گھٹیا مال فراہم کرنے کی شکایات دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، اس فراڈ کو بھی صارفین کیلئے قائم عدالتوں کے دائرہ کار میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ چند اچھی شہرت کے حامل اداروں (اگر ہیں تو) کیلئے فضا خراب کرنے والے فراڈیوں کیخلاف کارروائی کی جاسکے۔ حالیہ دنوں میں ہی تین چار کتب دوستوں نے بھجوائی ہیں اور کچھ ایک دوست کے توسط سے منگوانی پڑیں۔ مطالعہ طالب علموں کی طرح قلم مزدوروں کی ضرورت بلکہ بقول اُستاد محترم سید عالی رضوی مرحوم ”مطالعہ قلم مزدور کا رزق ہے”۔ نصف درجن کے قریب ان کتابوں میں جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کے صاحبزادے سیدحسین فاروق مودودی کی اپنے والد کے حوالے سے لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔ دو سو صفحات کی ایک کتاب میں جہان اندر جہانوں کے قصے ہیں۔ سید صاحب کے خانوادے علمی وسماجی اور صحافتی و تحریکی خدمات کا جستہ جستہ احوال ہے۔ سب سے دلچسپ حصہ سید مودودی اور جماعت اسلامی کے درمیان سید صاحب کے آخری ایام میں بڑھتی ہوئی بداعتمادی کی بنیاد بنے چند واقعات ہیں۔ کیسے کیسے پارسا تھے جو سید مودودی مرحوم کی زندگی میں ہی ان کی ان کتابوں کی رائیلٹی بھی دبا کر بیٹھ گئے جو انہوں نے اپنے اہلخانہ کے اخراجات کیلئے وقف کی تھیں۔ بعض کتب کے مقامی پبلشروں اور سید مرحوم کے درمیان اختلافات کیساتھ’ مذہبی سکالر جاوید غامدی کے جماعت سے تعلق و لاتعلقی کی داستان بھی دلچسپ ہے۔ سب سے دلچسپ تبصرہ وہ ہے جو مولانا ابوالکلام آزاد نے دہلی میں حضرت مولانا عبدالسلام نیاز کی اقامت گاہ پر جماعت اسلامی کا پہلا منشور پڑھ کر سید مودودی کی موجودگی میں کیا۔ تقسیم ہند اور اس سے قبل کے بعض معاملات میں سید مرحوم کے صاحبزادے نے اپنے والد اور جماعت اسلامی کے اس وقت کے کردار و عمل کادفاع کیا ہے یہ ان کا حق ہے۔
ان دنوں مائنس ون یا تھری کی باتیں زبان زدعام ہیں۔ پچھلی شب سے وسیم اکرم پلس کی رخصتی کی افواہیں زوروں پر ہیں، ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ فیصلہ کرنے والوں نے گزشتہ دنوں جناب عمران خان کے متبادل کے طور پر تین شخصیات کا انٹرویو بھی کیا۔ اب یہ انٹرویو تھے یا رسمی ملاقاتیں ان پر پھر کسی وقت عرض کریں گے، فی الوقت تو یہ ہے کہ ایک دنیا ہمارے بھولے بھالے سرائیکی بھائی عثمان بزدار کے پیچھے پڑی ہے۔ گجراتی چودھری اپنا دائو لگانے کے چکر میں ہیں، (باقی صفحہ7)

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار