3 135

تحریک انصاف کا سہرا

بڑے دنوں بعد میں نے اپنے قلم میں یہ ہمت مجتمع کی تھی کہ اس حکومت کے دو اقدامات کو سراہ سکوں۔ ابھی تک تو مایوسی ہی چار دانگ عالم بجتی ہے اور کسی قسم کی اُمید کی کوئی کرن کہیں سے جھانکتی محسوس نہیں ہوتی۔ ایسی بے بسی ہے اور دل یوں مسلسل نااُمیدی کی گرفت میں رہا ہے کہ اس حکومت کو ووٹ دینا اپنا جرم محسوس ہونے لگتا ہے مگر برسات نے اس حکومت کے درخت لگانے کے مشن کو بھی دوبارہ تازہ کردیا ہے اور جناب عمران خان نے دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ دونوں ہی باتیں کمال ہیں، اگرچہ دونوں میں سے کم ازکم ایک یعنی دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ملک کی معیشت کی کمزوری سے الگ رکھ کر نہیں دیکھا جا سکتا لیکن پھر بھی یہ ایک ایسا تاریخی قدم ہے جس کا سہرا بہرحال تحریک انصاف اور عمران خان کے ہی سر ہوگا۔پیپلز پارٹی کو البتہ اس سہرے میں اپنا حصہ ضرور محسوس ہونا چاہئے، دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کے حصول کیلئے پراجیکٹ2008 میں منظور کیا گیا تھا اس وقت اس کی قیمت تقریباً 60ارب روپے تھی۔ اکتوبر2011 میں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے انہوں نے 4500میگا واٹ کی اہلیت رکھنے والے دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس وقت یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر آٹھ سے دس سالوں میں مکمل ہو جائے گی۔
بات محض اتنی ہی نہیں تھی، تبھی تو کوئی سیاسی حکومت اور پرویز مشرف کی ملغوبہ حکومت بھی اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ کر سکی تھی چونکہ یہ باتیں ایک عام آدمی کو بتانے کا رواج ہی نہیں ڈالا گیا اسلئے ہماری موجودہ حکومت بھی شاید پوری بات عوام کو بتانے سے گریز کر رہی ہے۔ چین کی حکومت بھی اس منصوبے میں پاکستان کی مددگار ہے۔ یہ بات تو پاکستانی جانتے ہی ہیں لیکن اس ڈیم کے حوالے سے کس کس کو کیا کیا اعتراضات رہے اور انہوں نے ان اعتراضات کے اظہار میں کبھی کوئی جھجک ظاہر نہیں کی۔ بھارت اس ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے مسلسل پریشانی کا اظہار کرتا رہا۔ انہیں یہ بات پریشان کرتی ہے کہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بند باندھ رہا ہے، انہیں اپنے بند دکھائی ہی نہیں دیتے۔ انہیں اس بند کی بلندی پر اعتراض ہے، ان کا خیال ہے کہ یہ بند ایک ایسی جگہ تعمیر ہو رہا ہے جہاں مسلسل زلزلے آتے ہیں اور کچھ ایسی ہی تشویش امریکہ کو بھی مسلسل لاحق رہی ہے۔ کسی بھی تکنیکی تفصیل کی بات کئے بغیر ایک عام سی انسانی نفسیات کی بات ہے، دوست ساتھ دیتے ہیں، مشورہ دیتے ہیں، مدد کرتے ہیں اور دشمن حسد محسوس کرتے ہیں، راستہ روکتے ہیں، راستے مسدود کرنے کی کوششیں کرتے ہیں، اس حکومت کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بے شمار دباؤ کیساتھ بھی انہوں نے اس منصوبے کا آغاز کر دیا ہے۔ میں اس حکومت کی کارکردگی سے بہت مایوس سہی اور میرے جیسے بے شمار لوگ ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دینے کے فیصلے پر بڑی جھنجھلاہٹ محسوس کی ہے، لیکن اس بات سے مفر نہیں کہ اس ملک کے سیاستدان اس ملک کے وفادار نہیں، بات اسی حد تک موقوف ہوتی تو شاید گزارا ہو جاتا۔ اس ملک کی بیوروکریسی کی بڑی تعداد، اس ملک کے اکثر ادارے، اس ملک کا ایک عام آدمی، سب اپنا اپنا ایجنڈا، اپنے اپنے مفادات رکھتے ہیں اور اس سب میں اس ملک کا کہیں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کس میں اتنی ہمت ہوسکتی تھی کہ امریکہ کے اعتراضات کے سامنے کھڑا ہوجاتا یا بھارت کا مقابلہ کرتا، یہ کارنامہ تو اسی حکومت کا ہے اور اس پر یہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ خود انہیں بھی معلوم نہ ہو کہ انہوں نے کس کس کی دشمنی مول لی ہے لیکن اس ملک کیلئے اس ملک کے مستقبل کیلئے اور ایک عام آدمی کیلئے یہ منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم آج سمجھ نہیں سکتے لیکن جب یہ منصوبہ مکمل ہوگا، اس کے اثرات مرتب ہونے شروع ہونگے، تب یہ معلوم ہوگا کہ اس ملک کیلئے کیسی گراں قدر خدمت سرانجام دی گئی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ درخت لگانے اور شجرکاری کے حوالے سے ہے۔ ابھی جو درخت لگائے جارہے ہیں وہ اگلے پانچ سے دس سالوں میں انشاء اللہ اپنے جوبن پر ہونگے۔ ان کے اثرات ملک کی فضا پر، ماحولیاتی آلودگی پر دکھائی دینے لگیں گے۔ پاکستان اگر اپنے رقبے کا دس فیصد ہی درختوں سے ڈھانکنے میں کامیاب ہوجائے تو کمال تبدیلی آسکتی ہے۔ ویسے تو کسی بھی علاقے کا 20فیصد درختوں سے ڈھکا ہونا، اس علاقے کی صحت کیلئے ضروری ہے لیکن پاکستان میں تو یہ تناسب تین فیصد سے بھی کم ہو چکا تھا جس میں بتدریج کمی واقع ہورہی تھی، لاہور اور شمالی پنجاب میں اس کمی کا سہرا شریف برادران کے ترقیاتی کاموں کو جاتا ہے۔ گزشتہ سال میں لاہور میں خاصی شجرکاری ہوئی، سو یہ سہرا بھی اسی حکومت کے سر ہے۔ یہ معاملات ایک عام آدمی کے پیش نظر نہیں۔ اپوزیشن گندم، پیٹرول، بجلی کی قیمتوں کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے کوئی پوچھے کہ دنیا کے بہترین آبپاشی کے نظام والے ملک میں ایک قدرتی بتدریج ڈھلان کے ملک میں پیٹرول سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے دور میں کیوں لگے۔ ہمارے ملک میں تو کوئی نظام باقی نہیں اور اس حکومت کی کسی شے پر گرفت نہیں ورنہ ان فیصلوں پر تو ملک سے غداری کے مقدمے چلائے جانے چاہئے تھے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''