5 135

خدا توفیق دیتا ہے جنہیں وہ یہ سمجھتے ہیں

قسمت کی لکیریں آپ کے ہتھیلی پر موجود ہیں’ سے مراد قسمت کو بگاڑنا یا اسے سنوارنا آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ قسمت کو سنوارنے کیلئے ہمیں روزانہ24اشرفیاں24گھنٹوں کی صورت ودیعت ہوتی ہیں۔ ان میں سے ہم کچھ گھنٹے سو کر گزار دیتے ہیں۔ ماہرین طب کہتے ہیں کہ دن رات کے24گھنٹوں میں ایک مناسب صحت کا بندہ8گھنٹے سوتا ہے یا اس کو8گھنٹے سونا چاہئے، تاہم یہ بات اس کی مرضی یا ضرورت پر منحصر ہے کہ وہ کتنے گھنٹے سوتا ہے۔ بعض لوگ آٹھ گھنٹے سے کم سو کر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں اور بعض8گھنٹوں سے زیادہ سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ آپ کتنے گھنٹے استراحت فرما کر اپنی نیند پوری کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں آج ہی سے یہ بات نوٹ کرنا شروع کر دیجئے کہ کتنے گھنٹے کی نیند آپ کے ذہن کو تروتازہ کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔ اوروں کے متعلق معلوم نہیں، کم سونے یا نیند کے پورا نہ ہونے کی صورت میں صبح معمولات گاہی نپٹانے میں بری طرح ناکام رہتا ہوں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ معمولات صبح گاہی کیا ہوتے ہیں۔ اس کا سیدھا سادا جواب آپ کے کانوں میں ‘اَلصَّلوة خیرا منَ النوم’ کی صدا پڑے تو سمجھ جائیے کہ آپ کو کہا جارہا ہے کہ اُٹھو بیدار ہوجاؤ، کہ یہ وقت نہیں ہے سونے کا اور نماز کی ادائیگی نیند کرنے یا اپنے بستر پر کروٹیں لینے سے بہتر ہے۔ صرف دو رکعت سنت اور دو رکعت فرض ہی پڑھنی ہے آپ نے جس کیلئے آپ نے الطہارت نصف الایمان کی تعلیمات دین متیں پر عمل کرنے کیلئے پہلا کام اپنے واش روم غسل خانہ یا وضوگاہ کا رخ کرنا ہے اور باوضو ہوکر اپنی جائے نماز پر مالک کن فیکون کے حضور سر بسجود ہونے کیلئے پاک صاف ہوکر پہنچ جانا ہے۔ آج کل جو کورونا وائرس کی وباء کا ہر جانب خوف پھیلا ہوا ہے اس سے بچنے کی بار بار تلقین کرنے والے پکار پکار کر کہتے رہتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھوتے رہئے یہی بات ہمارے دین نے ہمیں آج سے چودہ سو سے بھی زیادہ برس پہلے وضو کرنے کا طریقہ سمجھا کر بتا دی تھی۔ نماز پنجگانہ کی ادائیگی کرنے والا کم ازکم نماز کے مقررہ اوقات میں بغیر وضو کے رہ ہی نہیں سکتا اور جب وہ یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے تو وہ ہر لمحہ ہر آن اپنے وجود کو ناپاک اور پراگندہ ہونے سے بچانے کی مقدور بھر کوشش بھی جاری رکھتا ہے۔ صفائی ستھرائی یا طہارت کا اہتمام کرنے کیلئے ہم نے نہ صرف اپنے وجود کی طہارت کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ اپنی سوچوں اور تفکرات کو بھی پاکیزہ رکھنا بلکہ مجھے یوں کہنا چاہئے کہ پاک صاف اور نفیس زندگی گزارنے کیلئے ذہن کے پاک صاف ہونے کی شرط شرط اول ہے۔ اگر آپ کا ذہن عیاشی کی جانب مائل ہوگا اگر آپ کی سوچوں کا محور محبوب حقیقی کی بجائے کسی نازک اندام یا کسی پری چہرہ کا وجود ہوگا یا آپ نے اپنے دل کے مندر میں کسی کافر ادا کا بت سجا کر رکھا ہوگا یا آپ کا ذہن دنیاوی غرض وغایت حرص ولالچ میں اُلجھا ہوگا تو آپ سمجھ لیجئے گا کہ آپ کو تن کی پاکیزگی سے پہلے من کی پاکیزگی کی ضرورت ہے۔ صبح دم جب آپ نیند سے بیدار ہوں تو اللہ سبحان تعالی کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے ایک اور دن ودیعت کر دیا۔ دل اور دماغ میں کوئی اور خیال لانے کی بجائے آپ باوضو ہوکر اپنی جائے نماز اور مصلے پر پہنچئے اور وہ جائے نماز یا مصلہ کسی ایسی جگہ رکھا گیا ہو جو مسجد کی طرح پاک صاف ہو۔ بہتر یہ ہے کہ آپ مسجد ہی میں جاکر نماز باجماعت ادا کریں، کرونا کی وباء کو پھیلنے سے روکنے کیلئے پچاس برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو گھروں پر ہی نماز ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے یا پھر صرف فرض نماز کی ادائیگی کیلئے سماجی دوریوں اور فاصلوں کا اہتمام کرکے مساجد میں پہنچنا چاہئے اور سنتوں کی ادائیگی گھر پر ہی کر لینی چاہئے۔ یہ فتویٰ مفتی پاکستان دے چکے ہیں جس کیلئے مجھ جیسے دنیادار کے کچھ کہنے کی گنجائش نہیں، میں نے تو بات قسمت کی لکیروں کے حوالے سے شروع کی تھی جو جاپہنچی جینے کے سلیقوں اور ان اطوار پر جو ہمیں دین فطرت نے عطا کئے، دن رات کے چوبیس گھنٹے جنہیں میں نے ہر روز ملنے والی24اشرفیوں کا انعام کہا ہے، جس میں سے اگر آپ آٹھ یا نوگھنٹے سوکر گزارتے ہیں تو16یا پندرہ گھنٹے آپ اس منزل کی جانب رواں دواں رہ سکتے ہیں، جو ہمارا مقصد حیات ہے، صرف نماز پڑھنا ہی عبادت نہیں، کسی کا حق نہ مارنا بھی عبادت ہے، پورا تولنا بھی عبادت ہے اور تول کر بولنا بھی عبادت ہے، دیکھیں کسی کی دل آزاری یا تضحیک نہ ہوجائے، کہیں تم اس جہنم میں جلنے نہ لگو جسے بدلے کی آگ کہتے ہیں، بغض وعناد کینہ پروری کا نام دیتے ہیں، حرص ہوس، طمع ولالچ یہ سب زندگی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کرتے ہیں اور قومیں اپنی قسمت کا رونا روتی رہ جاتی ہیں، ملک مقروض ہوجاتے ہیں، مہنگائی بڑھ جاتی ہے، حق اور انصاف بکنے لگتا ہے اور تحریک انصاف ایک کھوکھلا نعرہ بن جاتا ہے۔ سمجھ جائیں کہ قسمت کی لکیریں آپ کے ہاتھ میں ہیں اور ان کو تم بدل بھی سکتے ہو
خدا توفیق دیتا ہے جنہیں وہ یہ سمجھتے ہیں
کہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے بنا کرتی ہیں تقدیریں

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج