4 131

سرکاری ملازمین پر نظرکرم

کوئی بھی نہیں جانتا کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، غیریقینی کی فضا نے سب کو پریشان کر رکھا ہے، وزیراطلاعات ونشریات کا کہنا ہے کہ اداروں میں لاقانونیت ہے، نظام ٹھیک کرنا آسان نہیں ہے، بہت سے مسائل کا سامنا ہے، اصلاحات لارہے ہیں، پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر پنشن ختم کئے جانے کے حوالے سے خبریں گردش کر رہی تھیں، انہوں نے اس قسم کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے پنشن کو ختم نہیں کیا جا رہا، اس قسم کی غلط خبروں کی روک تھام کیلئے سائبرکرائم اور پیمرا کے ذریعے اقدامات کئے جارہے ہیں تاکہ اس قسم کی غیرذمہ دارانہ خبروں کا سدباب کیا جاسکے۔ شاید یہ حالات کی ستم ظریفی ہی ہے کہ اس وقت سرکاری ملازمین مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں، اس مرتبہ بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اگرچہ مہنگائی پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہے، روپے کی قدر میں بھی خاطرخواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ پرانی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ پچھلی حکومتوں میں ہر بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں خاطرخواہ اضافہ ہوجایا کرتا تھا جس سے انہیں یہ تسلی رہتی تھی کہ چلیں بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی، اب تو سرکاری ملازمین اس لئے بھی پریشان ہیں کہ ان کے سروس سٹرکچر میں نت نئی اصلاحات بھی کئے جانے کا امکان ہے اور یہ خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ اب انہیں فکسڈ تنخواہ پر کام کرنا ہوگا، انہیں کوئی سالانہ انکریمنٹ بھی نہیں دیا جائے گا۔ تنخواہ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ صرف تن کیلئے کافی ہوتی ہے دوسری بہت سی ضروریات پوری ہونے سے رہ جاتی ہیں، ایک پرانی کہاوت ہے: اتم کھیتی، مدہم بیوپار اور نکھت چاکری! کھیتی سے مراد کھیتی باڑی ہے یعنی زراعت کا پیشہ! اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پیشہ سب سے بہترین ہے، اس میں برکت ہی برکت ہے اور وطن عزیز میں تو جاگیردار یا بڑے بڑے زمیندار تو شروع ہی سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے چلے آرہے ہیں یہ ٹیکس سے بھی بچے رہتے ہیں اور اپنے مزارعوں کا بھی خوب استحصال کرتے رہتے ہیں۔ خود ٹیکس نہیں دیتے اور اپنے مزارعوں پر بہت سے نام نہاد ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ کاروبار کا دوسرا نمبر ہے یہ کھیتی باڑی کے منافع کا مقابلہ تو نہیں کرسکتا لیکن اس میں بھی بہت برکت ہے، کاروباری طبقہ تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں ہمیشہ خوشحال رہتا ہے اس کیلئے مہنگائی کا مقابلہ کرنا بھی آسان ہوتا ہے اگر یہ مہنگے داموں اشیاء خریدتے ہیں تو انہیں مہنگے داموں فروخت بھی کرتے ہیں۔ سارا زور صارف کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اب جیسے آٹا مہنگا ہوگیا تو نانبائیوں نے روٹی کی قیمت بڑھا دی سارا زور خریدار کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کہاوت کا آخری حصہ نکھت چاکری ہے، نکھت کے معنی ہیں انتہائی کمزور اور چاکری کہتے ہیں نوکری یا ملازمت کو، یعنی ملازمت زراعت اور کاروبار کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی، حالات جیسے بھی ہوں مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہے، انہیں اپنی تنخواہ پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے، انہیں اپنی پرانی تنخواہ ہی میں مہنگی روٹی خریدنی پڑتی ہے، سبزیاں دالیں اور دوسری اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں سارا سال اضافہ ہوتا رہتا ہے، اسی طرح گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی بڑھتی رہتی ہیں لیکن انہیں یہ سارے اخراجات اپنی تنخواہ ہی سے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ اب آپ خود سوچئے کہ اگر اس قسم کے حالات میں ان کی تنخواہوں میں بجٹ کے موقع پر اضافہ بھی نہ کیا جائے اور سالانہ اضافہ (انکریمنٹ) بھی روک دیا جائے تو ان بیچاروں کی مالی حالت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی اور ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ انہیں سفیدپوش طبقہ کہا جاتا ہے جس کا شمار کمزور مڈل کلاس میں ہوتا ہے، ان کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کیلئے اونچے طبقے کیساتھ بھی تعلقات رکھنے پڑتے ہیں، ان کی غمی خوشی میں شریک ہونا پڑتا ہے، اسی طرح دوسرے رسم ورواج بھی نباہنے پڑتے ہیں، حکومت کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہوگا اس کی بھی اپنی مجبوریاں ہوں گی، آئی ایم ایف کی املا بھی جاری رہتی ہے کیونکہ قرضہ لینا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا، جس سے قرض لیا جاتا ہے اس کی شرائط بھی مانی جاتی ہیں لیکن صرف سرکاری ملازمین پر ہی یہ نظرکرم کیوں؟ اور بھی بہت سے طبقات ہیں ان پر بھی معاشی ذمہ داریوں کا کچھ بوجھ تو ڈالنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!