p613 61

ہیلتھ کیئر کمیشن کی اب تو آنکھیں کھل جانی چاہئیں

ہیلتھ کیئر کمیشن نے کرک میں ایک نجی ہسپتال کا خفیہ کیمرے کے ذریعے عکس بندی کے الزام کی تحقیقات کے دوران اس الزام کی حقیقت کا کھوج لگانے کیساتھ ساتھ جن میں دیگر غیرقانونی امور کی نشاندہی کر کے ہسپتال کو سیل کر دیا ہے، ہیلتھ کیئر کمیشن صوبے کے جس بھی نجی ہسپتال یا کلینک یا میڈیکل سنٹر کے نام پر چلائے جانے والے مقامات کا دورہ کرے گی تو معدودے چند کے یہی صورتحال سامنے آئے گی۔ یہ صرف کرک کے ایک نجی ہسپتال کی کہانی نہیں صوبے بھر میں کم وبیش اسی قسم کی صورتحال ہے جہاں بغیر سہولیات استعداد اور منظوری کے مختلف قسم کے آپریشن وولادت اور علاج ہوتا ہے۔ہیلتھ کیئر کمیشن اگر روایتی کردار اور دفاتر میں بیٹھ کر کارکردگی دکھانے کی بجائے کلینکس، میڈیکل سنٹرز اور نجی ہسپتالوں کا معائنہ کرے تو آپریشن تھیٹر میں بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی، مریضوں کا ریکارڈ نہ رکھنے، او ٹی میں آپریشن مقررہ طبی اصولوںکے برعکس ہونے کے سینکڑوں عقدے کھلیں گے۔ جن خامیوں کی کرک میں نشاندہی سامنے آئی ہے نہ صرف یہ معمول کا حصہ ہیں بلکہ اتائیوں اور میڈیکل سٹوروں میں پیچیدہ بیماریوں کا علاج وتشخیص کر کے ادویات کی فروخت کا دھندہ بھی عروج پر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقع کے بعد ہیلتھ کیئر کمیشن کے حکام کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور اس واقعے کو مشت نمونہ ازخروارے گردانتے ہوئے صوبائی دارالحکومت ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز اور اضلاع کی سطح تک جہاں جہاں بھی افرادی قوت اور وسائل اجازت دے وہاں پر بلاامتیاز علاج گاہوں اور شفاخانوں کا معائنہ کرنا چاہئے۔ ہیلتھ کیئر کمیشن دوردراز کے علاقوں کیلئے بھی ٹیمیں تشکیل دیں اور جتنا جلد ممکن ہوسکے دورے اور معائنہ کا عمل شروع کرے تاکہ کم ازکم اس امر کا احساس تو پیدا ہو کہ کوئی پوچھنے والا ادارہ بھی ہے، حکومت کا کوئی قانون لاگو بھی ہوسکتا ہے اور خلاف ورزی پر سزا بھی مل سکتی ہے۔ سادہ لوح عوام کو علاج کے نام پر لوٹنے اور غیرمستند افراد کا علاج کے نام پر مرض کو مزید پیچیدہ کرنے اور بگاڑنے والوں کیخلاف جتنا جلد کارروائی شروع ہوسکے اتنا بہتر ہوگا۔ صوبائی حکومت اور محکمہ صحت کو اضلاع میں صحت کے منتظمین کو بھی متحرک کرنے اور ان کو متعلقہ علاقوں میں لوگوں کی صحت اور جانوں سے کھیلنے والوں کو کھیل کھیلنے ذمہ دار قرار دینا چاہئے۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی جعلسازوں کیخلاف متحرک کیا جائے، علاوہ ازیں عوام کو اس امر کی باربار آگاہی دی جائے کہ مستند ڈاکٹر سے علاج کرانا کتنا ضروری ہے۔
بحرین انتظامیہ شرپسندوں کے دباؤ میں کیوں؟
تحصیل بحرین کے علاقہ بڈئی جبہ میں 100گھروں کو جلانے کے بعد راستہ بند کرنا اور میڈیا کی ٹیم کو گھیر کر انہیں جبہ میں آگ کی نذر ہونے والے گھروں کی رپورٹنگ سے روکنے کا عمل قانون کو کھلے عام چیلنج کرنے کا باعث امر ہے، جسے برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہمارے سوات بیورو کی رپورٹ کے مطابق شرپسندوں نے بڈئی جبہ کے راستے میں بڑے بڑے پتھر رکھ کر راستے کو گاڑیوں کیلئے بند کردیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ راستہ بین الاقوامی اہمیت کے حامل کندیا پاس تک رسائی دیتا ہے مگر شرپسندوں کی وجہ سے سیاحوں کو بھی اب علاقہ کے اندر جانے نہیں دیا جاتا۔ انتظامیہ نے گھر جلانے والے فریق کیخلاف کیا کارروائی کی اس کا بھی پوری طرح علم نہیں، اگر اس واقعے پر انتظامیہ دباؤ میں آنے کی بجائے حرکت میں آتی اور ذمہ دار عناصر کی گرفتاری اور ان کیخلاف قانونی کارروائی کا آغاز ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔ اس واقعے سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ علاقے پر حکومت اور قانون کی نہیں شرپسندوں کی عملداری ہے جتنا جلد ممکن ہوسکے شرپسندوں کو پابند سلاسل اور راستہ کھول دیا جائے۔
شمالی وزیرستان میڈیکل کالج کا نظرانداز منصوبہ
ضم اضلاع میں تیزتر ترقی کی دعویدار حکومت کے دور میں شمالی وزیرستان کے ترقیاتی پروگرام سے میڈیکل کالج کی تعمیر کا منصوبہ نکال دینے کا عمل علاقے کے عوام کیلئے خاص طور پر دکھ کا باعث ہونا فطری امر ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ خود وزیراعظم عمران خان نے شمالی وزیرستان میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا محکمہ صحت کی جانب سے اسمبلی سیکرٹریٹ کو فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر عمل درآمد کرتے ہوئے شمالی وزیرستان میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹی قائم کرنے کے منصوبوں کو تیزتر ترقیاتی پروگرام (اے آئی پی)2019-20ء میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک عام آدمی کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کسی اعلان کی تکمیل کے تقاضے کیا ہوتے ہیں اور کن کن مراحل سے گزرنے کے بعد کسی منصوبے پر کام شروع ہوتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں میڈیکل کالج کی تعمیر میں تاخیر تکنیکی بنیادوں پر ضرور ہوئی ہے لیکن ان مراحل کو بروقت اختیار نہ کرنے اور منظوری نہ لینے کی ذمہ داری علاقے کے عوام کی نہیں حکومت کی ذمہ داری تھی۔ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں کی بہرحال یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس اہم منصوبے کی طرف حکومت کی بار بار توجہ دلاتے اور تکنیکی بنیادوں پر اس منصوبے میں پیشرفت پر باقاعدہ نظر رکھتے، بہرحال چونکہ اس کا اعلان وزیراعظم نے خود کیا تھا لہٰذا اس کی تکمیل بھی صوبائی حکومت ہی کی ذمہ داری تھی جس میں کوتاہی ہوئی۔ بعد ازتاخیر بسیار اب جبکہ رواں مالی سال کی ٹرین چھوٹ چکی تو کم ازکم آئندہ کے بجٹ ہی میں اس منصوبے کو ترقیاتی پروگرام میں شامل کرنے کو یقینی بنانے کیلئے ضروری لوازمات پر کام شروع کیا جائے اور اس کی کابینہ سے منظوری ودیگر ضروری چھان بین کا عمل، اس کیلئے فنڈز کی فراہمی پر توجہ دی جائے تاکہ منصوبے پر کام شروع کرنے میں مزید سال نہ بیت جائیں۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد