logo 30

اب گندم کا بحران۔۔

وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک فخر امام کا کٹائی کے سیزن کے فوراً بعد گندم اور آٹے کی مہنگے داموں فروخت پر حیرت کا اظہار عوام کیلئے بھی باعث صداستعجاب امر اسلئے ہے کہ گندم کی قیمت کو اعتدال میں رکھنا جن کی ذمہ داری ہے اگر ان کو ہی تعجب ہو تو گندم کی قیمتوں کو اعتدال میں رکھنے کی ذمہ داری کون نبھائے گا؟ اس بیان کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار بے جا نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔یہ امر واقعی حیرت انگیز ہے کہ کٹائی کے بعد یعنی صرف2ماہ قبل کاشتکاروں سے خریدی گئی ساٹھ لاکھ ٹن گندم مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے۔ قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرنے کہا کہ60لاکھ ٹن گندم خریدی گئی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کیلئے15لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے اس لئے7لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے اور ہم نے7لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ فخر امام کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں نے گندم14سو روپے فی من فروخت کی او ر اب گندم18سو اور2ہزار روپے فی من پر فروخت کی جارہی ہے۔ اس موقع پر قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے کہا کہ گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی غیر آئینی ہے اور اگر ضروری ہے تو ایوان کے سامنے اس کی جامع رپورٹ پیش کی جانی چاہئے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی تو اب کہاں غائب ہوگئی۔ وفاقی وزیر نے جس صورتحال کی نشاندہی کی ہے اس سے گندم کی بہت بڑے پیمانے پر سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی دونوں امور کی نشاندہی ہوتی ہے، تحفظ خوراک کے وزیر ہی اگر مارکیٹ اورانتظامی اقدامات کے ذریعے طلب ورسد اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے گندم مارکیٹ سے غائب کرنے اور سمگلنگ کی روک تھام اور عوامی ضروریات کے مطابق آٹا وگندم کی فراہمی وموجودگی یقینی بنانے میں ناکام رہیں تو عوام پھر کس سے توقعات وابستہ کریں۔ ایسا لگتا ہے کہ مافیانے چینی سکینڈل کو دہرانے کی تیاری کرلی ہے اور حکومت کے پاس سوائے گندم باہر سے منگوانے کی اجازت دینے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں۔ گندم کی قیمتوں میں ابھی سے بڑا اضافہ سامنے آیا ہے اور وقت گزرنے اور اگلے سال تقریباً انہی دنوں تک نئی فصل کی مارکیٹ میں خریداری تک مارکیٹ کے یرغمال رہنے کا امکان نظر آتا ہے۔ حکومت نے سرکاری طور پر گندم کی جو خریداری کی ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ کافی نہیں اور حکومت اپنے پاس ذخیرہ شدہ گندم کے ذریعے منڈی میں قیمتوں کو اعتدال میں لانے کی پوزیشن میں نہیں۔ حکومت کے پاس گندم کا وافر ذخیرہ ہوتا اور صوبائی حکومتوں کو بین الصوبائی پابندی کے تحت گندم کی خریداری سے باز نہ رکھا جاتا تو صوبائی ووفاقی حکومت مل کر اس بحران کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ گندم کی بین الصوبائی نقل وحرکت کے غیر آئینی اقدام کا سارا فائدہ ذخیرہ اندوز مافیا لے گئی اور ملک میں وافر مقدار میں گندم ہونے کے باوجود اب حکومت باہر سے گندم منگوانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ حکومت اگر شوگر سکینڈل کے تجربے سے چوکنا ہو جاتی اور گندم کی فصل آنے پر نگرانی کا نظام فعال ہو تا تو اس طرح کی صورتحال کی شاید نوبت نہ آتی۔ اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ اس بحران کے پس پردہ بھی کہیں حکومتی فیصلوں اور بیوروکریسی کی ملی بھگت وغلط فیصلوں کا عمل دخل تو نہیں۔جب تک مافیاز کیخلاف ٹھوس کارروائی نہیں ہوگی وہ سرمایہ لگا کر اور کارٹل بنا کر مختلف وجوہات کی بناء پر حکومت اور عوام کا ناطقہ بند کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ گندم سکینڈل کی تحقیقات ہونی چاہئے، آئندہ اس طرح کی صورتحال کی روک تھام کیلئے ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی اور بروقت فیصلوں، اقدامات اور نگرانی کے عمل کے ذریعے بروقت تدارک کی ضرورت ہے، سانپ کے گزرجانے کے بعد لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ادویات کی قیمتوں میں اضافہ
وفاقی حکومت کی فارما کمپنیوں کو ادویات کی قیمتوں میں سات سے دس فیصد اضافہ کی اجازت ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ پر وزیراعظم کے نوٹس اور ادویات کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی سراسر نفی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں پہلے ہی کئی کئی گنا وغیرمنظور شدہ اضافہ ہو چکا تھا جس کا جائزہ لیکر کمی کی ضرورت تھی۔ ڈریپ کے نوٹیفکیشن کے مطابق ادویہ ساز کمپنیوں اور امپورٹرز کو بنیادی ادویات کی قیمتوں میں7فیصدجبکہ دیگر ادویات کی قیمتوں میں10فیصد اضافہ کی اجازت دی گئی ہے۔ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ادویات کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، اب مزید اضافہ نہ کیاجائے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق بنیادی ادویات کی قیمتوں میں5.14فیصد جبکہ دیگر تمام ادویات کی قیمتوں میں7.34فیصد اضافے کی اجازت دی گئی تھی۔ادویات کی قیمتوں میں معمول کے اضافے کیساتھ بوقت ضرورت ادویات کی قلت پیدا کر کے جس بڑے پیمانے پر عوام کی جیبوں سے رقم اینٹھ لی جاتی ہے حکومت اس پر بھی قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کورونا کی وباء کے دنوں میں ایک ایک انجکشن چار سے چھ لاکھ میں فروخت ہوتی رہی، مختلف پروپیگنڈوں کے ذریعے ادویات کی فروخت بڑھا کر اس کی اضافی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ ادویات کو صحت وعلاج کی بنیادی ضرورت ہونے کے باعث مناسب قیمت پر فروخت کرنے کی بجائے اسے مال تجارت بنادیا گیا ہے، حالیہ اضافہ کی منظوری سے قبل حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ ادویات کی اس بے تحاشہ اضافہ پر وزیراعظم کے نوٹس وہدایت پر عملدرآمد کی سعی کرتی کجا کہ اضافہ دراضافہ کی منظوری دی گئی۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ آخر پڑوسی ملک سے ادویات کی سمگلنگ اور اس کا استعمال کیوں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سمگل ہو کر آنے والی ادویات کی قیمت مقامی مارکیٹ سے نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔ ادویات کی قیمتوں کا حقیقت پسندانہ تعین اور مناسب اضافہ سے سمگل شدہ ادویات کی کھیپ درکھیپ آمدکی روک تھام ممکن ہے۔ حکومت کم ازکم غذائی اشیاء اور ادویات کی قیمتوں ہی کو معتدل رکھ کر عوام کو اضافی بوجھ اور مہنگائی سے بچا سکتی ہے، اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے