syed zeshan 3

بلوچستان کی پسماندگی کے اسباب

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، قدرتی ذخائر اور معدنیات کے اعتبار سے بھی مالامال ہے لیکن یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسائل اور پسماندگی کے اعتبار سے بھی بلوچستان ہی سرفہرست ہے، پورے پاکستان کو گیس کی سہولت فراہم کرنے والے بلوچستان کے اکثر علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں، قیمتی پتھر اور سونے کے ذخائر کا کوئی حساب ہی نہیں ہے، جس قدر معدنیات بلوچستان میں ہیں اگر دنیا کے کسی دوسرے خطے میں موجود ہوتیں تو ان کا شمار دنیا کے امیرترین ممالک میں ہوتا، لیکن بلوچستان کے کئی علاقوں میں پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں ہے، بچے اسکول کی عمارت سے محروم جبکہ پختہ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے عوام سفر میں مشکلات اُٹھانے پر مجبور ہیں۔
ان دنوں بلوچستان صوبے کے اندر جعلی ڈومیسائل پر دوسرے صوبوں بالعموم سندھ اور بالخصوص پنجاب کے لوگوں کی بلوچستان کے کوٹے پر وفاقی ملازمتوں میں بھرتیوں کا معاملہ بہت گرم ہے، یہ مسئلہ حقیقی ہے اور برسوں سے بلوچستان کے نوجوانوں کا حق سب کے سامنے مارا جارہا ہے، مگر اس صریح زیادتی کو ماضی میں روکا جاسکا اور نہ اب اس تسلسل کو روکنے کے فی الواقع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ اس باب میں بلوچستان کی سبھی جماعتیں متفق ہیں اور تمام جماعتیں اور حلقے حکومت سے اقدام اُٹھانے کے مطالبات اور قانونی چارہ جوئی پر زور دے رہے ہیں تاہم یہ سارے حلقے خود قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے کردار نبھاتے دکھائی نہیں دیتے۔
قیام پاکستان کیساتھ ہی تجاوز کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ دوسرے صوبوں سے سرکاری ملازمین کا تبادلہ بلوچستان میں کیا جاتا تھا، وجہ یہ تھی کہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ اور سرکار کو مطلوب ملازمین موجود نہ تھے، تعلیم کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی، چنانچہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ان ملازمین کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا اجراء ہوتا جو تبادلے کے بعد بھی ان اسناد کے حامل رہتے، جس سے ان کی اولادوں کو بھی ڈومیسائل جاری کیا جاتا۔ یوں بلوچستان اور وفاق میں صوبے کیلئے مختص کوٹے پر بڑی آسانی سے ملازمتوں کے حامل ٹھہرتے، یوں یہ سلسلہ آج تک چلتا آرہا ہے۔ بلوچستان کے بعض موجودہ پارلیمنٹرینز کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جعل سازی کے ذریعے مقامی سرٹیفکیٹ حاصل کررکھے ہیں۔
جعلی ڈومیسائل کے اجراء کا مسئلہ سینیٹ میں نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میرکبیر محمد شہی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے اُٹھایا۔ یقیناً بلوچستان کے دوسرے سینیٹرز نے بھی اُٹھایا ہے جو اس معاملے کو صوبے کے نوجوانوں کی حق تلفی سمجھتے ہیں۔ گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی نے حلف اُٹھانے کے بعد وفاقی محکموں میں بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل پر تعینات ہزاروں غیرمقامی افراد کا ریکارڈ منگوانے کی ہدایت کردی ہے۔ صوبے کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو جاری ڈومیسائل کی ازسرنو تصدیق کرانے کی ہدایت کی ہے چنانچہ اب تک مختلف اضلاع کی انتظامیہ بڑی تعداد میں غیرقانونی ڈومیسائل کی نشاندہی کرچکی ہے۔ ضلع مستونگ میں چار سو جعلی ڈومیسائل کی نشاندہی ہوئی ہے۔ کوئٹہ اور چند دوسرے اضلاع سے بھی بڑی تعداد میں جعلی ڈومیسائل بنوائے جاچکے ہیں۔ بلوچستان کے کوٹے پر وفاق میں ایسے افراد نے بھی ملازمتیں حاصل کررکھی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی اس صوبے میں قدم نہیں رکھا جبکہ صوبے کے اندر بھی کئی محکموں بالخصوص پولیس میں بڑی تعداد میں باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ملازمین موجود ہیں جن کے اہل وعیال بھی یہاں نہیں رہتے۔ وہ ریٹائرمنٹ تک اکیلے یہاں رہائش اختیار کرتے ہیں، تنخواہ گھر بھجواتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی آبائی صوبے چلے جاتے ہیں۔ اس پس منظر کے بعد ہونا یہ چاہئے کہ صوبے کے اندر ڈومیسائل کی ازسرنو تجدید ہو، تمام ڈومیسائل منسوخ کئے جائیں خواہ ان کا تعلق بلوچستان ہی سے کیوں نہ ہو کیونکہ یہاں کے قدیم غیرمقامی خاندانوں کی بھی حق تلفی ہورہی ہے۔ یہاں سکونت رکھنے والے افراد دوبارہ اپنے اپنے اضلاع میں اسناد کیلئے رجوع کریں۔ ساتھ ہی جن سینکڑوں افراد نے ڈومیسائل کے حصول کیلئے جعل سازی کی ہے اور ملازمتیں حاصل کی ہیں، ان کیخلاف مجاز اداروں سے رجوع کیا جائے۔ اس سلسلے میں نادرا کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ نادرا چند سال قبل بلوچستان حکومت کو ایک تجویز بھی دے چکا ہے مگر اس میں وفاق اور صوبے دونوں کے اندر موجود بااثر طبقے رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ خود یا ان کے عزیز واقارب اس کی زد میں آئیں گے۔ وزیراعلیٰ جام کمال بھی اس ضمن میں اپنی تشویش ظاہر کرچکے ہیں۔ جعلی ڈومیسائل کی منسوخی کو موجودہ صوبائی حکومت نے اپنی نوعیت کا پہلا قدم قرار دیا ہے، جب ہم اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کی خودمختاری کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کی پسماندگی پر غور کئے جانے سمیت جعلی ڈومیسائل کا دیرینہ مسئلہ حل کیا جائے تاکہ صوبے کے نوجوانوں کو روزگار مل سکے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان