mushtaq shabab 18

عجیب چیز ہے یہ طول مدعا کیلئے

وزیراعظم عمران خان نے جس بات کی نشاندہی گزشتہ روز دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کا جائزہ لینے کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی ہے اس کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے، انہوں نے درست کہا کہ ماضی کے غلط فیصلوں سے معیشت کو نقصان پہنچا اور90ء کی دہائی میں تیل سے بجلی بنانے کا فیصلہ غلط تھا، ادھر گزشتہ روز خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان نے ملک میں توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے سلسلے میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مجوزہ27سالہ منصوبے آئی جی سی ای پی میں صوبے کے وسائل سے شروع کردہ پن بجلی کے منصوبوں کو نظرانداز کئے جانے پر اعتراضات اُٹھا دیئے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے صوبے میں30ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بارے جو کہا ہے یہ ہوا میں کہی گئی کوئی بات نہیں بلکہ خود واپڈا کے ماہر انجینئرز کی جانب سے کی گئی سٹڈی میں عرصہ پہلے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے آبائی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک عالمی شہرت کے ماہر انجینئر (مرحوم) عبدالغفور خان نے اپنی کتاب ”خاموش تشدد” (جس کی ایک کاپی مرحوم نے ذاتی طور پر راقم کو بھی عنایت کی تھی) میں جہاں چھوٹے بڑے ڈیمز، پانی اور دیگر ذرائع خصوصاً کوئلے سے بجلی بنانے کے درمیان فرق یعنی ان پر اُٹھنے والے اخراجات اور ماحولیات پر پڑنے والے اثرات پر بحث کی ہے وہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں، سوات، دیر، چترال، ہزارہ، کاغان وغیرہ میں چھوٹی سطح پر تیس ہزار میگا واٹ سے زائد پن بجلی کے حصول کی بھی نشاندہی کی ہے اور جس پر گزشتہ کئی برس سے گاہے گاہے انہی کالموں میں گزارش کرتے ہوئے مختلف ادوار میں پانی کی بجائے متبادل (انتہائی مہنگے) منصوبوں پر ملک وقوم کیساتھ ہونے والی زیادتی پر نوحہ کناں رہا ہوں، مگر وہ جو کہتے ہیں کہ غریب ملا کی اذان پر کون کلمہ پڑھتا ہے، تو صوبہ خیبر پختونخوا کے آبی وسائل کو مسلسل نظرانداز کرتے ہوئے دیگر ذرائع سے بجلی حاصل کرنے والوں نے کبھی توجہ نہیں دی تو اس کی اپنی وجوہات ہیں جن میں اہم وجہ تو اس صوبے کیساتھ روا رکھا جانے والا وہ سلوک ہے جس کی جانب وزیراعلیٰ محمود خان نے اشارہ کردیا ہے جبکہ اس پالیسی کے منفی نتائج پر وزیراعظم عمران خان نے حرف زنی کی ہے اور پن بجلی کے مقابلے میں تیل سے چلائے جانے والے بجلی منصوبوں کو ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ قرار دیا ہے، ان تمام حالات کا جائزہ لیکر جب ہم اصل وجوہات پر غور کرتے ہیں تو اس تمام تر صورتحال کی تہہ سے صرف اور صرف کالاباغ ڈیم کا مردہ گھوڑا سراُٹھاتا دکھائی دیتا ہے، جسے نہ صرف ماہر انجینئروں نے جن میں نہ صرف انجینئر عبدالغفور خان اور عطاء اللہ خان گنڈا پور (مرحومین) شامل تھے بلکہ دیگر کئی ماہرین نے بھی اس منصوبے کو صوبہ خیبر پختونخوا کیلئے انتہائی خطرناک قرار دیا، جبکہ سندھ میں بھی بوجوہ اس ڈیم کی تعمیر کو سندھ کی بربادی سے موسوم کرتے ہوئے اسے مسترد کیا اور بلوچستان نے بھی اسے ناقابل قبول کی سند عطا کی، تینوں صوبوں کی اسمبلیوں نے بار بار اس منصوبے کیخلاف متفقہ (جی ہاں متفقہ) قراردادیں منظور کر کے اسے قومی یکجہتی کیلئے خطرناک قرار دیا، یوں بڑے صوبے کے مفاد کے سامنے چھوٹے صوبوں کی کیا حیثیت کے سوال پر وہاں کی طاقتور لابی(جو صوبے کی آبادی کے لحاظ سے تمام کلیدی عہدوں پر براجمان ہے)نے بغض معاویہ میں ملک وقوم کے مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے سستی ترین پن بجلی کے حصول کی بجائے کوئلے اور بعد میں فرنس آئل اور گیس سے مہنگی بجلی کا حصول ممکن بنایا، جس کے پیچھے کئی مقاصد تھے، ایک تویہ کہ پن بجلی کے منصوبوں سے بجلی رائیلٹی خیبر پختونخوا کو دینی پڑتی جبکہ یہ مخصوص لابی اے جی این قاضی فارمولے کے طے شدہ سپریم کورٹ سے تصدیق شدہ اور صدر پاکستان سے حاصل کردہ ضمانت کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا کو اس کے حق منافع سے آج تک محروم رکھے ہوئے ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے ایک بار پھر اے جی این قاضی فارمولے پر اعتراضات اُٹھا کر اسے متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں، یوں پن بجلی کے منصوبوں کی راہ میں روڑے اٹکانے کی سعی اب بھی جاری ہے جس کا ثبوت دیامیر بھاشا ڈیم بھی ہے جس کا اب تک 8بار افتتاح ہو جانے کے باوجود اس کی تعمیر میں رکاوٹیں ختم ہونے کو نہیں آرہی ہیں، دیگر ذرائع یعنی کوئلے، فرنس آئل، گیس وغیرہ کے منصوبوں پر اُٹھنے والے اخراجات مسلسل اضافے کا سبب بنتے ہیں اور ان کی مشینری کی دیکھ بھال بلکہ کبھی کبھی تبدیلی کیلئے بھی اربوں کھربوں کی ضرورت ہوتی ہے، مستزاد یہ کہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی پانی کے وسائل سے حاصل کردہ سستی بجلی (تقریباً دو ڈھائی روپے یونٹ) کے مقابلے میں کئی گنا مہنگی ہوتی ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے اور اہم ترین وجہ پن بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے بعد کسی مخصوص لابی یا گروہ کو کک بیک یا کمیشن ملنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا، جبکہ دیگر منصوبوں میں آئی پی پیز کی مبینہ لوٹ مار میں حصہ داری کی لالچ بھی پن بجلی منصوبوں کی تکمیل کو سوالیہ نشان بنانے کا باعث بنتی ہے۔ زیادہ تفصیل سے لکھا جائے تو ایسے کئی کالم بھی کم پڑ سکتے ہیں، بس عقلمند کیلئے اشارہ ہی کافی ہے کہ بقول داغ دہلوی
ملے جو حشر میں لے لوں زبان ناصح کی
عجیب چیز ہے یہ طول مدعا کیلئے

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''