logo 30

مشرقیات

مدینہ منورہ کے شمال ومشرق کی طرف آٹھ منزل کی مسافت پر وادیٔ القریٰ ہی کے سلسلے میں جو شاداب قطعہ زمین ہے اس میں یہود کے دس مضبوط قلعے ہیں اور وہ سارا علاقہ خیبرکہلاتا ہے، انہی میں جا کر مدینہ کے یہودی قبائل بنی نضیر اور بنی قینقاع بھی آباد ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کو اپنی ذاتی ناکامیوں اور ایوب وہرڈویہ کے بہکانے سے شب وروز یہی فکر رہتی کہ کسی طرح مسلمانوں کی قوت توڑ دیں چنانچہ اب پھر انہوں نے دس ہزار کا گروہ جمع کر لیا اور قبائل عرب بنی غطفان اور بنی اسد کو اپنا حلیف بنا کر اپنا شریک حال کر لیا۔ یہ لوگ لڑائی کی تیاریاں کر رہے تھے اور نہایت اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ طوفان عظیم مدینہ پر آپہنچا۔
آخر حضور بنی کریمۖ نے رب تعالیٰ پر بھروسہ کر کے چودہ سو صحابیوں کو علم توحید کے نیچے جمع کیا اور خود ہی اس کے مٹانے کیلئے چل کھڑے ہوئے۔ بعض منافقوں نے یہود کو آپۖ کی روانگی کی خبر کر دی اور انہوں نے ارادہ کیا کہ آپۖ سے کھلے میدان میں مقابلہ کر کے ایک فیصلہ کن لڑائی کریں، مگر آپۖ اس تیزی سے کوچ کر کے ان کے سروں پر جا پہنچے کہ قبائل عرب ان کی مدد کو نہیں آنے پائے تھے۔ اپنی یہ کمزوری دیکھ کر یہود اپنے قلعوں میں واپس چلے گئے اور آپ راتوں رات کوچ کر کے خاص قلعہ جات خیبر پر جا پہنچے۔ صبح کو یہود نے اپنے قلعوں کو محصور پایا تو مجبور ہوئے کہ اندر بیٹھ کر لڑیں۔ انہیں اپنے قلعوں کی مضبوطی پر ناز تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان کچھ نہ بگاڑ سکیں گے اور عاجز آکر خود ہی پلٹ جائیں گے۔ اب مسلمانوں نے قلعوں پر دھاوا بول دیا اور یہود شہر پناہوں میں سے پتھر اور تیر برسانے لگے مگر مسلمانوں کے سچے جوش اور ان کی موحدانہ شجاعت کو کوئی چیز نہ دبا سکی، وہ برابر بڑھتے چلے گئے اور قلعہ ناعم اور دو ایک اور قلعے فتح کر لئے۔ اب حصین المقوس پر حملہ تھا، جو سب سے زیادہ مستحکم تھا اور اس کی مضبوطی کی وجہ سے محاصرہ کو طول ہو گیا۔ اکابر صحابہ میں سے کئی ایک جھنڈے لیکر حملہ آور ہوئے، مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر حضور نبی کریمۖ نے اپنے داماد حضر علی المرتضیٰ کو علم سپہ سالاری دیکر روانہ کیا۔ آپ جیسے ہی بڑھے، شجاعان یہود میں سے حارث اور مرحب ایک زبردست لشکر کیساتھ قلعہ سے نکل کر مدمقابل ہوئے اور دونوں حریفوں میں خونریزی ہونے لگی۔
(جاری ہے)

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!