5 136

اب کس طرف کو جانا ہے کپتان؟

وزیراعظم عمران خان کو یہ اُمید تھی کہ بیوروکریسی ملک چلانے میں ان کی ویسی معاونت کرے گی جیسے اس نے سابق حکمرانوں کے ادوار میں کی تھی مگر افسوس کہ ان کی اس اُمید پر بھی بڑی بیدردی سے پانی پھیر دیا گیا۔ افسرشاہی اور سرکاری انتظامیہ سالوں بے توجہی اور حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے باعث ایک لاغر ڈھانچے میں تبدیل ہو گئی ہے۔ عمران خان جو تحریک انصاف میں مائنس ون کے فارمولے کی بازگشت سننے کے بعد چند قدم پیچھے ہٹے تھے، اب پھر سے عوامی حمایت کے حصول کیلئے چند بڑے اقدامات لینے کا فیصلہ کر بیٹھے ہیں۔ عمران خان اس سے پہلے تک تو اپنے عزیز از جاں شوکت خانم ہسپتال کیلئے چندہ اکھٹا کرنے کے عادی تھے مگر اب بطور وزیراعظم ان سے ایسی فیاضی کی اُمید کی جا رہی ہے جو اس قوم کے محدود وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ممکن ہی نظر نہیں آتی۔ صوبہ پنجاب میں ایک اسی طرح کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور کے قرب میں ہی دبئی کی طرز پر ایک جدید شہر بسانے کی منصوبہ بندی تیار کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس شہر کے قیام کا مقصد ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی قلت جیسے مسائل کو دورکرنا ہے البتہ صوبے کی تقریباً ایک لاکھ ایکڑ بارانی زمین اس منصوبے میں استعمال ہو جانے کا خدشہ ہے۔ ابھی اس منصوبے کے حوالے سے مالیاتی معاملات واضح بھی نہ ہوئے تھے کہ اس سے پہلے ہی پنجاب حکومت نے نجی شعبے کی جانب سے پانچ کھرب روپوں کی سرمایہ کاری کی اُمید دل میں جگا لی ہے۔ راوی کنارے آباد ہونے والے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہاں افراد کو سال 2012 میںاس کیخلاف دائر کردہ اس پٹیشن کا بخوبی مطالعہ کر لینا چاہئے جس میں ماہرین ماحولیات نے راوی کے دریا کو کیچڑ کی گزرگاہ قرار دیا تھا۔ اس معاملے میںدبئی حکومت کے ایسے شہر بسانے اور چلانے کے تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ پنجاب کے راوی ریور فرنٹ منصوبے کو وفاقی حکومت کے پانچ اور دس مرلوں کے لاتعداد مکانات کی فراہمی کے منصوبے کی روشنی میں مکمل کئے جانا ہے۔ ان مکانات کیلئے نہایت کم شرح سود کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ تعمیرات کے شعبے میں معاونت کیلئے قائم کردہ قومی کمیٹی کی ذمہ داریوں میں نیا ہاؤسنگ اسکیم کے منصوبے کو اس شعبے سے وابستہ اداروں سے ملانا اور ان کی معاونت حاصل کرنا شامل ہے۔ حکومت کو اس وفاقی منصوبے میں 20کھرب کی غیردستاویزی، غیررسمی معیشت کا حصہ بننے کی توقع ہے اور اس اقدام سے کالا دھن رکھنے والے تمام سرمایہ کاروں کو اکتیس دسمبر 2020 تک اپنا کالادھن سفید کرنے کا ایک اہم موقع بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اُمید کی جا رہی ہے کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے بھی ان کے پاس موجود تمام سرمائے کا پانچ فیصد حصہ اس منصوبے کیلئے مختص کیا جائے گا۔ یہ330ارب روپے کی رقم تعمیرات کی مد میں خرچ کئے جانے کی توقع ہے اور اس کے بدلے حکومت نے سالانہ تیس ارب روپے کی سبسڈی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اچھا ہوگا کہ اگر این سی سی ایچ اس پوری اسکیم کی حتمی منظوری سے قبل مرکزی بینک کی ہاؤس فائنانسنگ متعلق سال2014 کی ایک رپورٹ پڑھ لے جس میں ان مسائل کی طرف نشاندہی کی گئی ہے جس کے سبب ہاؤس فائنانسنگ کے شعبے کو مشکلات درپیش آتی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق نجی بینکوں نے ہاؤس فائنانسنگ کے بارے متحرک انداز میں کوئی کام نہیں کیا اور ان کی جانب سے چند بڑے شہروں سے ہٹ کر کسی دوسرے شہر کیلئے قرضہ نہ دینا بھی پاکستان میں ہاؤس فائنانسنگ کے پھل پھول نا سکنے کی ایک وجہ ہے۔ ہمیں 1970 میں روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا گیا، سال 2001ء میں حکومت کی جانب سے قومی ہاؤسنگ پالیسی تشکیل دی گئی تھی، 2013ء میں اس پر نظرثانی کی گئی اور آج اس کے سات سالوں بعد بھی ہم دوبارہ مرحلہ ون پر آکھڑے ہوئے ہیں۔ نئی ہاؤسنگ اسکیم میں موجود بڑے نقائص میں لینڈ ریکارڈ ز کا کمپیوٹرائزڈ نہ ہونا، غیرمحفوظ قبضے، رہن کے مسائل اور زراعت کو نقصان پہنچائے بغیر مناسب مقدار میں زمین کی دستیابی یقینی بنانا شامل ہیں۔ پیلی ٹیکسی اور پیلے ٹریکٹر اسکیموں پر یقین کر لینے والے عوام کیلئے یہ پانچ اور دس مرلے کے مکانات کی اسکیم پر یقین کرنا قطعاً مشکل نہیں۔ عوام کا یہ طبقہ غیرسنجیدہ حکومتوں کی جانب سے کبھی ان مسائل کا حقیقی اور دیرپا حل حاصل نہیں کر پائے گا جن کو ساتھ لئے ایک پاکستانی جنم لیتا ہے۔ معاشی ابتری کی حالت میں مکانات اور سڑکوں کی تعمیر اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر سرمایہ کاری بڑھا دینا دنیا بھر میں معمول ہے۔ اس سے معیشت میں ایک نئی روح بیدار ہو جاتی ہے۔ اس طریقے کے بانی کینز کے مطابق، قومی وسائل سے تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کر کے معیشت میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے البتہ ان میں سے کچھ منصوبوں کے ناکام ہونے کے بھی واضح امکانات موجود ہوتے ہیں۔ نتیجہ جو بھی نکلے، ہمیں کم ازکم متنبہ تو کر دیا گیا ہے
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  گھاس کھاتا فلسطینی بچہ کیا کہتا ہے؟