3 136

مار ڈالو کہ میں اکیلا ہوں

قوموں کے مزاج صدیوں کے رویوں سے تشکیل پاتے ہیں۔ حالات نے طنابیں کھینچ کر کس راہ پر گامزن کیا’ کیا معاملہ رکھا’ کیسے کیسے دوسروں نے اس ایک قوم پر اثرپذیری کی کوشش کی۔ اس سب کا تجزیہ تاریخ نگار کرتے ہیں’ عمرانی مفکرین کرتے ہیں لیکن بحیثیت قوم اگر کوئی بانجھ ہو جائے مفکرین اور تجزیہ نگاروں کو جنم دینا ہی بند کردے جو ان واقعات اور ان سے جنم لینے والے رویوں کی آپسی بنت کو بغور دیکھیں، یہ ڈھونڈ نکالنے کی کوشش کریں کہ اب جو قوم کا مزاج ہے وہ کیوں ہے؟ تو پھر وہ قوم’ قوم نہیں رہتی’ ہجوم ہو جاتی ہے اور ہجوم کا کوئی مستقل رویہ نہیں ہوتا’ ہجوم ایک سیلابی ریلہ ہے جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ جب جب ہم نے اپنی قوم کا مزاج سمجھنے اور اسے کوئی عنوان دینے کی کوشش کی ہے کئی باتیں تو فہم کی گرفت سے ہی پھسل جاتی ہیں۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہم جیسے ہیں ویسے کیوں ہیں اور کیسے یہاں تک پہنچے۔ میں سمجھتی ہوں کہ صدیوں سے فاتحین کے راستے میں ہونے کے باعث چند روئیے تو اس علاقے کے لوگوں کی جنیات کا حصہ بن گئے ہیں۔ اپنے قارئین سے میں نے پہلے بھی اس بات کا تذکرہ کیا ہے’ ہم لوگ شخصیت پرست لوگ ہیں، یہ شخصیت پرستی بھی اسی لئے ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی ہے کیونکہ ہم صدیوں سے قوموں کی لشکری مہموں کے مہموں تلے بچھتے رہے ہیں۔ تبھی ہم جمہوریت پسند بھی نہیں ہمیں عسکریت ہی بھاتی ہے کیونکہ صدیوں کے چابک نے یہ پسند ہمارے مزاج کا حصہ بنا دی ہے۔ ایک اور اہم بات جو صدیوں کے اس جبر نے ہمارے مزاجوں کا حصہ کر دی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ بیرونی مدد کے منتظر رہتے ہیں’ ہمیشہ کسی مسیحا کے اُمید نے ہمیں اچھے دنوں کی آس سے باندھ کر رکھا ہے۔ بہادرشاہ ظفر کے آخری دنوں میں مچرب کارتوسوں کے استعمال سے جھنجھلائے ہوئے لوگ’ کبھی ایران کے شاہ کے منتظر تھے اور کبھی روس کے حملے کا یقین کرتے تھے۔ حد یہ تھی کہ ایک مصنوعی فرمان شاہ ایران سے منسوب بھی کیا گیا اور دہلی کے قلعے کی دیوار پر چسپاں بھی رہا جس میں کہا جاتا ہے کہ شاہ ایران نے مسلمانوں کو اپنے تفرقات بھلا کر فرنگیوں کیخلاف یکجا ہوجانے کی ہدایت کی تھی۔ اسی زمانے میں بادشاہ کے دربار میں ایک صاحب حسن عسکری کا بھی بہت آنا جانا تھا جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ خوابوں کی تعبیر بتاتے ہیں’ انہیں الہام بھی ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو بتایا کہ انہوں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ مغرب کی طرف سے ایک دھواں اُٹھا ہے جو سارے ملک پر چھا گیا ہے، اس آندھی نے سب کچھ نیست ونابود کر دیا لیکن اس طوفان کے عین درمیان بادشاہ سلامت اپنے تخت پر بڑے اطمینان سے براجمان ہیں۔ ایک کمزور اور ضعیف بادشاہ کیلئے ایسا خواب یقینا تقویت کا باعث ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ بہادر شاہ ظفر پر جب انگریز حکومت نے بغاوت کا مقدمہ چلایا تو یہ صاحب بھی اس مقدمے میں جرح کیلئے پیش کئے گئے اور وہ جن کے روحانی تفرقات کے حوالے سے اور بادشاہ کی قربت کی بابت دہلی میں چرچے تھے اپنی ہی کرامات سے مکر گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بادشاہ کو اپنے خواب کے حوالے سے یہ تعبیر بتائی تھی کہ ایران کی جانب سے ہندوستان پر حملہ ہوگا جو فرنگیوں کو نیست ونابود کردے گا اور بادشاہ کو اپنی حکومت واپس مل جائے گی۔ روس کی جانب سے حملے کا خطرہ تو انگریزوں کو بھی مسلسل لاحق رہتا تھا’ تبھی تو مسلسل جاسوسی کا ایک نظام کام کرتا تھا۔ بلوچستان کو بھی اسی لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غیرآباد رکھا گیا تاکہ ان راستوں کو استعمال کرنے کا سوچا نہ جاسکے۔ اسی خطرے کے احساس نے اس علاقے کے لوگوں میں اُمید کے طور پر قدم جمالئے ہوں گے۔ یہ رویہ بس یہیں پر مفقود نہیں ہوا’ یہ مسلسل موجود ہے۔ اسی روئیے کا تسلسل تھا جو ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بار بار دیکھا۔ کبھی جمہوریت’ کبھی آمریت پھر جمہوریت’ پھر جمہوریت نما آمریت’ پھر جمہوریت’ پھر تبدیلی اور تبدیلی میں ایک مسخر جمہوریت’ ہمیشہ ہی اس ملک کے لوگوں نے کہیں اور سے مسیحائی کا انتظار کیا اور مسیحائی کسی جانب سے نہ ہوسکی۔ وہ لوگ جو بہادر شاہ ظفر کے دور میں ایران اور روس کی فوجوں کے حملے کا انتظار کرتے تھے انہوں نے کبھی اپنی فلاح کیلئے اپنی ہی فوج کے خود پر حملے کو خوش آمدید کہا اور کبھی پرانی آزمائی ہوئی جماعتوں کے مقابلے ایک نئی سیاسی جماعت کو موقع دیا۔ لیکن یہ لوگ کمال لوگ ہیں ان میں سے آج تک خود کوئی نہیں بدلا۔ ہم نے ہمیشہ طوفانوں کے خواب دیکھے اور ان طوفانوں میں اپنے تخت کو محفوظ دیکھا’ خود کو اس تخت پر براجمان دیکھا۔ اس کیلئے ہمیں ہر دور میں حسن عسکری ملے انہوں نے ہمیں وہ تعبیریں بتائیں جو ہم سننا چاہتے تھے اور ہم اسی نشے میں مدہوش رہے۔ غدر مچتا رہا، تباہی ہوتی رہی، ہم ایران اور روس کی فوجوں کے حملے کی اُمید میں تخت پر سوئے رہے اور وہ کیوں جو میرے اور آپ کے اندر خود اپنے ہی روئیے کیخلاف چلاتا رہتا ہے’ اسے بھی تھپک تھپک کر سلاتے رہے۔ آج بھی سلا رہے ہیں۔ ہر زخم’ ہر چرکے پر شاہ ایران کا وہ فرضی فرمان کسی بھی فرضی قلعے کی دیوار پر چسپاں کر آئے ہیں اور دوبارہ سو جاتے ہیں کہ ابھی وقت باقی ہے’ سو جاؤ بس مدد آیا ہی چاہتی ہے اور مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں یوں نہ ہو
دشمنوں تم کو خوف کس کا ہے
مار ڈالو کہ میں اکیلا ہوں

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت