4 144

ڈیپ فریزرکی نعمت متبرکہ

جلالی باوا ،اب بھی مصر ہیں کہ گزرا ہوا زمانہ اچھا تھا۔ بھئی کیسے اچھا تھا؟ تو فرماتے ہیں کہ قربانی کے بعد گوشت کو تین حصوں میں بانٹنا،ٹوکرے میں دوستوں رشتہ داروں کے لیے ان کے بخروںکی بھاجیاں ڈالنا ،گھر گھر ان گوشت کی بھاجیوں کو پہنچانا، رشتہ داروں سے ملنا ملانا۔ دورچار روز میں گوشت سے ”مکھتی ”حاصل کرلینا۔گوشت کا زیادہ حصہ غرباء ومساکین کو ملناوغیرہ وغیرہ۔ہم نے پوچھا یہ کیا بڑی بات ہوئی بولے کہ اب ذبیحہ کے بعد جوان موبائل فون عید مبارک کے میسج فارورڈ کرتے رہتے ہیں یا فیس بک فیس بک کھیلنے میں مشغول رہتے ہیں۔گوشت فریزر اور فرج کے سرد خانوں کی نذر ،اس زمانے میں نہ فریزر نہ فریج کا مسلہ ،نہ حرص نہ لالچ ،غریبوں کو ملنے والاگوشت رسیوں پر ڈال کر سوکھادیاجاتا ،اب گوشت کون سکھائے ،تازہ بہ تازہ فریزر سے نکالو،خود بھی کھاؤ، دوستوںکو بھی کھلاؤ۔ ہم نے کہا جب اگلے زمانے کو یاد کرتے ہوتو زمین دوز گہرائیوں والا فریزر کیوں خریدا توبولے کہ خانگی مسائل نہ ڈسکس کیے جائیں تو دوستی برقراررہنے کے امکانات قائم رہتے ہیں۔ہم نے پوچھا کہ ہمارے رویوں میں حرص کیوں بڑھ گئی ہے ۔بولے کہ مادہ پرستی ہمارے خون کا حصہ بن چکی ہے سویہ حرص اس کا سائیڈ افیکٹ ہے ۔جلالی باوا کا کمال یہ ہے کہ بے وقوفی کی باتیں پوری سنجیدگی اور سنجیدہ باتیں انتہائی غیرسنجیدگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ہم نے ان سے کہا گوشت کو کم از کم چالیس ڈگری فارن ہائیٹ پر فریزر میں دو یا زیادہ سے زیادہ چار دن تک رکھا جاسکتا ہے کیونکہ گوشت میں بیکٹیریاز اپنا عمل کرتے رہتے ہیں فریزشدہ گوشت میں یہ عمل سست تو ہوجاتا ہے مگر ختم نہیں ہوتااس لیے یہ گوشت کھانا صحت کے لیے مضر بھی ہوسکتا ہے ۔جلالی باوا اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہم پتھرہضم لکڑ ہضم قسم کے لوگ ہیں۔ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بیکٹیریا میکٹیریا سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ۔ہم پوچھتے ہیں کہ وہ کیسے تو فرماتے ہیں کہ میاں!شہر بھر میں ہر گلی ہر کوچے میں پڑے بلکہ پھیلے گندگی کے ڈھیروںکی بدولت جس متعفن فضامیں پھیپھڑے پھلاپھلا کرہم سانس لیتے ہیں۔
ملاوٹ کی وجہ سے خدا جانے کیا کیا ہمارے معدے میں جاتا ہے کسی کو کیا خبر،شہرکی فضامیں پھیلی کتنی مضرگیسیں ہم ایک ہی سانس میں اپنے کھینچ لیتے ہیں۔کوئی اور ہو تو آٹھویں دن اس کی رسم قل ہوجائے یہ تو ہم ہی ہیں کہ اللہ کے فضل سے پوری صحت کے ساتھ زمین پر دندناتے پھرتے ہیں۔ان بیکٹیریاکی مثال تو”یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے ”والی ہے۔خدا جانے ان بیکٹیریاز کا ہمارے معدے میں پہنچ کو کیا حال ہوتا ہوگا۔کتنی پریشانیاں خود ان بیکٹیریاز کو جھیلنی پڑتی ہوں گی ،وہا ں تو انہیں جان کے لالے پڑجاتے ہوں گے کہ یہ ہم کہاں آگئے ہیں۔اس موقع پروہ ہمیں بھینس کی مثال دیتے ہیں کہ باڑوں میں جس ماحول میں وہ رہتی ہیں وہ کسی بھی طور حفظان صحت کے مطابق نہیں ہوتا لیکن ان کی صحت پنجابی اور پشتو فلموں کی ہیروئیزکی طرح قابل رشک ہوتی ہے ۔ہمارے شہر بھی تو بھینسوں کے باڑوں جتنے ہی گندے ہیں پھر ہماراامیون سسٹم کیوں نہ بھینسوں سے کم پائیدار ہو۔مزیدفرماتے ہیں کہ اگر کسی نے تحقیق کی تو ہمارے معدے دنیا کے سب سے مضبوط معدے قرار دیے جائیں گے ،ہوسکتا ہے کہ چائینہ والے ہمارے جیسے تھریشر قسم کے معدے ایکسپورٹ کرنا بھی شروع کردے۔یہ بھی ہوسکتاہے کہ مستقبل میں امریکہ اپنے نازک مزاج فوجیوں کے معدوں کی سخت ٹریننگ کے سلسلے میں انہیں ہمارے شہر بھیج دیا کرے تاکہ حالت جنگ میں وہ کچھ بھی کھاکراور کہیں بھی رہ کر زندہ رہ سکیں۔جلالی باوا کے اس طویل مگر پرمغزاور جذباتی لیکچر نے تو ہماری کایا ہی پلٹ دی ہے ۔اب ہمیں کسی قسم کا ڈرنہیں ہے ۔ہم اکثرترنگ میں آکر اپنے ڈیپ فریزر کا ڈھکن کھول کر اپنے مرحوم بکرے کی چمچماتی ران کودیکھ لیتے ہیں کہ جسے ہم نے عید کے عین انہترویں دن اپنی شادی کی ایک اور سالگرہ پر پکاکر،مزے لے لے کرکھانا ہے ،یقین کیجئے کہ فریزر میں پڑی اس ران کی آن اور شان ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔۔۔اس لیے ہر گھر میں ایک ڈیپ فریزر تو ہونا ہی چاہیئے ۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم