2 245

آج وہ کشمیر ہے محکوم ومجبور وفقیر

آج سے تقریباً کچھ کم صدی پہلے علامہ اقبال نے افسوس کرتے ہوئے کہا تھا۔
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
اس خطے کو کسی نے جنت نظیر کہا کسی نے ایران صغیر کہا کچھ نے فردوس بریں کہا لیکن اس کے قدرتی حسن کی تعریف مکمل نہ ہوئی۔ آج یہی کشمیر ظلم کی چکی میں پس رہا ہے اور کوئی اس کی فکر نہیں کر رہا۔ وہاں سے مسلسل آزادی دو کے نعرے بلند ہورہے ہیں لیکن دنیا کان بند کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ مسلمان ممالک بھی یہ نعرے سننے سے انکاری ہیں آخر کیوں اور کب تک۔ آخر کیوں کشمیر کی آزادی دنیا کیلئے کوئی بڑا مسئلہ نہیں وہ دنیا جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتی ہے وہ یہاں انسانوں کے حقوق سے کیوں لاپرواہ اور بے خبر ہو جاتی ہے اور یہ کچھ آج سے نہیں ہو رہا بلکہ دہائیوں سے ہو رہا ہے۔ برصغیر تقسیم ہوا تو کشمیریوں کی بھی اُمید بندھی بلکہ انہیں یقین تھا کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان میں ہی شامل ہونگے لیکن ایسا نہ ہوا اور مزید جرم یہ ہوا کہ اس کے ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کر لیا، ظاہر ہے کہ یہ الحاق نہ کشمیریوں کو قبول تھا نہ پاکستان کو۔ یہی مسئلہ کشمیر ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مسائل کی جڑ ہے جب تک بھارت کشمیر کو آزاد نہیں کرتا تب تک خطے میں امن کے قیام کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ بھارت نے 1954 میں اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور35A کے تحت اس حیثیت کو تسلیم کیا تھا۔ اسی آرٹیکل کے تحت وہاں کی قانون ساز اسمبلی اپنی ریاست کا آئین بناتی تھی اور اسی کے تحت کسی غیرکشمیری کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ کشمیر میں کسی قسم کی جائیداد بنا سکے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست نے ابھی تک مسلم ہندوآبادی کا تناسب بر قرار رکھا ہوا تھا۔ جموں میں بھارت حیلے بہانے سے ہندو لاکر بساتا رہتا تھا تاہم کشمیر میں صورتحال قابو میں رہی لیکن 5 اگست 2019 کو بھارت نے اپنے ہی آئین کی یہ شق معطل کی اور کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ ایسا کرنے سے کئی دن پہلے ریاست میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس بند کردی گئی تھی، اجتماعات پر بھی پابندی لگائی گئی تھی یوں حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اسے پہلے سے ہی قابو کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ظاہر ہے یہ ایک بہت بڑا قدم تھا جو اُٹھایا گیا تھا اور اس پر کشمیریوں کا غم وغصہ بالکل قدرتی تھا لہٰذا شدید ہنگامے پھوٹ پڑے نہ صرف کشمیر بلکہ پوری دنیا میں کشمیریوں نے احتجاج کیا لیکن بھارت نے تاحال اپنے کئے پر نظرثانی نہیں کی ہے بلکہ ریاست میں طویل لاک ڈاؤن کیا، نیا قانون لاگو کرنے سے پہلے ہی بے تحاشا فوج تعینات کی گئی اور پورے اختیارات کیساتھ کی گئی جس نے ابھی تک پورے کشمیر کو محاصرے میں لیا ہوا ہے، کشمیر کو ایک بڑی جیل بنا دیا گیا وہاں کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا لیکن حیرت ہے کہ عالمی ضمیر سوتا رہا اور اب بھی سو رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں پرزور تقریر کے ذریعے بین الاقومی قوتوں کو جگانے کی کوشش کی۔ چند ایک ممالک بولے کچھ تھوڑی سی لے دے ہوئی اور پھر دنیا بھول گئی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس بے انصافی کے چند ہی مہینے بعد پوری دنیا ایک قدرتی وبا کے ہاتھوں گھروں میں محصور ہوگئی اور انہیں پتہ چلا کہ لاک ڈاؤن کیا ہوتا ہے لیکن کشمیریوں کے مسائل میں کمی نہیں آئی، وہ ابھی تک بھارتی فوج کے ہاتھوں مظالم برداشت کر رہے ہیں۔ یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت جس منصوبے پر کام کر رہا ہے یعنی کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا اس منصوبے کے تحت جموں کشمیر جو ایک اکائی ہے کو تین علیحدہ علیحدہ یونٹوں میں تقسیم کرنا ہے یعنی کشمیر، جموں اور لداخ۔ لداخ جو تبت سے قریب ہے اور اس میں بدھ مت کے ماننے والے کافی تعداد میں موجود ہیں لیکن پھر بھی آبادی میں سب سے زیادہ تناسب مسلمانوں کا ہے، اس کے بعد بدھ اور پھر ہندو ہیں۔ رہا جموں تو جموں صرف ایک ضلع ہے، کوئی الگ اکائی نہیں لیکن یہاں بھی بھارت سرکار نے لالا کر ہندو بسائے تاکہ جموں کشمیر میں مسلمان کی اکثریت کو کسی طرح اقلیت میں تبدیل کیا جائے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔ بھارت بجائے اس بات کو تسلیم کرنے کے کہ کشمیر مسلم اکثریتی ریاست ہے اور بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست ہے وہ یہاں بھی ان کو اقلیت میں بدلنے کی سازش کر رہا ہے تاکہ مسلمانوں کا مذہب کی بنیاد پر مطالبہ آزادی کو ختم کیا جاسکے۔ بھارت میں مسلمانوں کا استحصال ہو رہا ہے لیکن اب اُسے اپنے روئیے میں تبدیلی لانا ہوگی کیونکہ کشمیر ی آزادی سے کم کسی حل کو قبول کرنے پر تیار نہیں اور نہ ہی پاکستان کو اس کے علاوہ کوئی حل قبول ہے کیونکہ خطے میں امن صرف اُسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے اور بھارت کو جلد یا بہ دیر ایساکرنا ہوگا کیونکہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور کشمیری اس حق کو حاصل کر کے رہیں گے لہٰذا بھارت کو حقائق کا ادراک کرنا ہوگا اور کشمیر کو آزادی دنیا ہی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ