shahnawaz farooqi

معاشیات اور انسانی رشتے

مغربی دنیا کے پیدا کردہ موجودہ زمانے کے بارے میں مشرقی دانشوروں کا ایک عام سا خیال یہ ہے کہ یہ زمانہ انسان اور خدا، اور انسان اور کائنات، اور انسان اور انسان کے قدیم ترین رشتوں کو توڑنے کا زمانہ ہے۔ مغرب کے بہت سے اہل فکر ونظر نے بھی اس بات کی گواہی بڑی شد ومد کیساتھ دی ہے۔ اس طرح کے تمام لوگ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مغربی فلسفہ اور سائنس نے انسان کے ان تمام رشتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے جو قدیم ترین زمانے سے لیکر جدید زمانے تک انسانی زندگی کی معنویت کا تعین کرتے رہے ہیں اور جن کے بغیر انسانی زندگی کا تصور کرنا امر محال رہا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جدید عہد کے ان رشتوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے تاہم ہمارے خیال میں معاملہ توڑ پھوڑ سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جدید عہد کے فکری نظاموں نے ان رشتوں کو توڑنے سے زیادہ بدلنے کی کوشش کی ہے جو کہ توڑنے سے زیادہ خطرناک بات ہے۔ کیونکہ ٹوٹے رشتوں کو جوڑنا آسان ہے لیکن بدلے ہوئے رشتوں کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنا مشکل ہے خاص طور پر اگر یہ تبدیلی بنیادی اور جوہری نوعیت کی ہو اور ہمارے نزدیک اس عہد نے ان رشتوں میں بنیادی اور جوہری نوعیت کی تبدیلی پیدا کردی ہے۔ مثال کے طور پر انسان کی پوری زندگی کی معنویت کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ اس کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا بنیادی حوالہ کیا ہے؟ یعنی وہ کونسا مرکز ہے کہ جس کے اردگرد اس کی تمام سرگرمیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں؟ ایک زمانہ تھا کہ انسان کی تمام تر جدوجہد اور سرگرمیوں کا مرکزی حوالہ وہی رشتے تھے جن کا حوالہ ہم نے کالم کے آغاز میں دیا ہے۔ اس میں اس کی سیاسی، سماجی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں ہی نہیں بلکہ اس کی معاشی سرگرمیاں بھی شامل تھیں۔ تاہم جدید دور میں انسان کی جدوجہد اور سرگرمیوں کا مرکزی حوالہ یہ رشتے نہیں بلکہ یہ سرگرمیاں بن کر رہ گئی ہیں اور خاص طور پر معاشی سرگرمی۔ آج کے کالم میں ہم اسی سرگرمی اور انسانی رشتوں کے باہمی تعلق پر گفتگو کریں گے اور مختلف زاویوں سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ پچھلی پانچ چھ دہائیوں میں مغربی فکر کے زیراثر زندگی کی جو صورت پیدا ہوئی ہے اس نے انسان کی جدوجہد کے بنیادی مرکز کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ پہلے یہ مرکز مختلف تعلقات تھے اور اب معاشی زندگی یا معاشیات ہے۔ صنعتی زندگی جیسے جیسے پھیلائو اختیار کرتی جارہی ہے ویسے ویسے یہ مرکز زیادہ پیچیدہ اور اہم ترین بنتا جارہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی نفسیاتی، جذباتی اور محسوساتی ضروریات تیزی کیساتھ تبدیل ہورہی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی زمانے میں جو خوشی محبوب کے دیدار سے وابستہ تھی اب وہ خوشی جدید ترین ماڈل کی ٹویوٹا کار سے وابستہ ہوگئی ہے۔ ایک زمانے میں جو مسرت قریبی انسانی تعلقات سے ہوتی تھی اب وہ مسرت تعلقات عامہ سے ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یادوں کا بھر اکائونٹ انسان کی بڑی متاع ہوتا تھا اور ایک زمانہ یہ ہے کہ صحت مند بینک اکائونٹ انسان کے بلند مرتبہ کی علامت ہے یعنی ہر کھوٹے نے ہر کھرے کی جگہ لے لی ہے۔ بقول شاعر
مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہوگا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہوجائینگے
اب آپ ذرا زمین پر قائم ہونے والے انسانی رشتوں کی مختلف شکلوں پر ایک نظر ڈالیے۔ والدین اور اولاد کا رشتہ، بہنوں اور بھائیوں کا رشتہ، شوہر اور بیوی کا رشتہ، دوستوں کا رشتہ اور ان رشتوں کے درمیان آنے والے دیگر رشتوں کا رشتہ۔ ذرا غور کیجیے کہ ان رشتوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے والا عنصر کیا ہے؟ محبت، انسیت یا کوئی اور نفسیاتی، جذباتی یا جمالیاتی ضرورت؟ اگر محبت اور انسیت ہے تو اس محبت یا انسیت کی تشکیل کن عوامل نے کی ہے؟ کیا ایسا ہے کہ کوئی فرد دوسرے فرد کیلئے صرف ایک فرد کی حیثیت سے اہم ہے؟ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فرد اپنی معاشی اہمیت یا سماجی مرتبے کے باعث اہم ہے؟ ذرا سوچئے کہ جو فرد آج اپنے معاشی پس منظر کے باعث اہم ہے اگر کل اپنے معاشی پس منظر سے محروم ہوجائے تو کیا وہ پھر بھی آپ کیلئے اتنا ہی اہم ہوگا جتنا کہ آج ہے؟ میرے خیال میں اگر اکثر لوگ ایمانداری سے کام لیں تو ان سوالات کا ایک ہی جواب ہوگا کہ نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ شادی بیاہ کے سلسلے میں شرافت اور خاندان وغیرہ کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی مگر اب معاشی مرتبے کو دیکھا جاتا ہے۔ اگر معاشی مرتبہ کافی و شافی ہے تو پھر شرافت اور خاندان وغیرہ کی اہمیت بہت سرسری سی ہو کر رہ جاتی ہے۔ خیر یہ تو معاشرتی زندگی میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کی کچھ جھلکیاں تھیں جو ہر روز آپ کے مشاہدے اور تجربے میں بھی آرہی ہوں گی چنانچہ ان کو بیان کرنے سے مقصود ان کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان کی معنویت کا تعین ہے اور ان کی معنویت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ معاشیات نے انسانی زندگی کے منظرنامے سے انسان کو منہا کردیا ہے اور اس کی جگہ خود لے لی ہے۔ چنانچہ ہمارے تعلقات دراصل انسانی تعلقات نہیں بلکہ معاشی تعلقات ہیں۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت