3 153

عوامی دانش

پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے، ہماری یہ بات پڑھ کر بعض قارئین ناک بھوں چڑھا رہے ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں جو طوفان بدتمیزی برپا ہوتا ہے وہ ہمیں معلوم ہے، ہم ایسے تجربے سے باز آئے لیکن ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بھی ضرور سوچنا چاہئے جو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ یوں کہئے کہ مقامی بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنا ان کی زندگی کا اٹوٹ انگ ہے، اس لئے ان کے چاہنے اور نہ چاہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور جب کسی صورتحال سے نکلنے کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر اس سے لطف اندوز ہونے میں ہی نجات ہے، اگر آپ حیات آباد سے ہشت نگری چوک تک بس میں سفر کریں تو آپ کو سیکھنے کیلئے بہت کچھ ملے گا جس طرح گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ بس جس طرف دیکھئے برکت ہی برکت ہے، فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی تعداد شمار اور حد وحساب سے باہر ہے، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے کہ دنیا جہان کے رکشے پشاور میں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو یہ خیال آتے ہی خوف سا محسوس ہوتا ہے کہ اگر رکشہ ڈرائیوروں نے کبھی حکومت سے اپنے مطالبات منوانے کیلئے دھرنا دینے کا ارادہ کر لیا تو کیا ہوگا، یہ تو پورے شہر کو جام کردینے کی صلاحیتو ں سے مالامال ہیں۔ ہم روڈماسٹر ہیں اور اکثر سڑکوں پر مٹرگشت کرتے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے دیکھے جاسکتے ہیں، اس لئے عوامی دانش سے ہمیں زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے، ہم نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا کہ عام لوگوں سے گھل مل جانا بہت بڑی دانشمندی ہے یعنی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے، مقامی مزدے میں سفر کرتے ہوئے ہم نے اکثر دیکھا کہ ایک تیزطرار نوجوان اپنے ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی کتابیں پکڑے بس میں داخل ہوا، باآواز بلند سلام کرنے کے بعد وہ بڑے فنکارانہ انداز میں اپنی تقریر شروع کرتا ہے، وہ کتاب میں موجود معلومات کو زبانی یاد کئے ہوتا ہے اور اس معلومات کو بڑی روانی کیساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ اس کتاب کی قیمت دکان پر تو تیس روپے ہے لیکن یہاں یہ کتاب آپ کو صرف بیس روپے میں ملے گی۔ اس سے آپ مستفید ہوسکتے ہیں، اپنی معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں، آپ کے بچے اس کتا ب کو پڑھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، ہم نے وہ کتاب تو کبھی نہیں خریدی لیکن کتاب بیچنے والے کا لیکچر اتنی مرتبہ سن چکے ہیں کہ ہمیں ان کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں زبانی یاد ہوچکی ہیں اور ہم وقتاً فوقتاً لوگوں کو متاثر کرنے کیلئے اپنی علمیت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اگر بس میں سفر کے دوران کوئی باتونی شخص آپ کیساتھ نشست پر براجمان ہوجائے تو اس سے بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی بس وہ آپ کی طرف دیکھ کر پہلے تو حکومت وقت کا رونا روتا ہے، پھر عام آدمی کی حالت زار کا رونا رویا جاتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ آپ سے اپنے سیاسی نظریات بڑی فراخدلی سے بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہمیں تو اس قسم کے ہم نشیں کی باتیں سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کسی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بنفس نفیس موجود ہیں۔ کل ہمارے ساتھ ایک معزز اور بزرگ صورت شخص بس میں آکر بیٹھے اور حالات حاضرہ پر رواں تبصرہ کرنے لگے، پہلے تو وہ لوڈشیڈنگ کا رونا روتے رہے، ساری رات جاگتے ہوئے گزر جاتی ہے، نجانے لوڈشیڈنگ کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ توانائی کے اس بحران کو اب تک ختم ہوجانا چاہئے تھا لیکن ہمارے ارباب اقتدار کے پاس اس قسم کے مسائل کیلئے وقت ہی نہیں ہے۔ ان کی اپنی ترجیحات ہیں وہ سیاست سیاست کھیل رہے ہیں، اقتدار کا حصول ہی ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے، پھر لوگوں کی جہالت پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ کل کی تازہ خبر یہ ہے کہ ایک جعلی پیر ایک بچے کو بجلی کے کرنٹ دیکر اس کا علاج کر رہا تھا، آج کل تو ہر چیز کی ویڈیو بنتی ہے جیسے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی پولیس نے جعلی پیر کو گرفتار کر لیا لیکن میرا خیال ہے کہ قصور جعلی پیر کا نہیں ہے، قصور تو پڑھے لکھے لوگوں کی توہم پرستی کا ہے جو اس قسم کے ان پڑھ اور جاہل شعبدہ بازوں کے پاس اپنے مسائل لیکر جاتے ہیں، اس قسم کے جعلی پیر اب تک کتنے ہی گھر اجاڑ چکے ہیں۔ میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے، جو بھی ان کے پاس جاتا ہے اسے سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ آپ پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے، بندش ہے، میں اپنے عمل سے جادو کا اثر ختم کردوں گا، بندش بھی ختم ہوجائے گی، پھر سائل سے بہت سے مطالبات کئے جاتے ہیں، جن میں زعفران کالا بکرا وغیرہ بھی ہوتے ہیں، ہم نے ان سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے واقعات تو آئے روز اخبارات کی زینت بنتے ہیں لیکن ہمارے یہاں سزا جزا کا نظام بہت کمزور ہے، یہ جعلی پیر جو پکڑا گیا ہے اس کی ضمانت ہوجائے گی اور یہ پھر سے اپنے مکروہ دھندے میں مشغول ہوجائے گا۔ ہماری بات سن کر انہوں نے ہمارے یہاں رائج عدالتی نظام کی خرابیاں گنوانا شروع کردیں، ابھی ہمارے ہم نشیں کا تبصرہ جاری تھا، نجانے اس کے بعد وہ کیا فرماتے لیکن ہماری منزل آچکی تھی اور ہم ان کی تقریر پر تبصرے کی حسرت لئے بس سے اُتر آئے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟