5 154

لبنان میں دھماکے یا میزائل حملہ

لبنان میں دھماکوں سے انکار کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو دن کے دوران دوسری مرتبہ اپنے اس بیان پر اصرار کیا ہے گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعلان کیا کہ یہ بم دھماکے نہیں لبنان کو تباہ کرنے کیلئے میزائل حملہ کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے دھماکے کے فوری بعد یہ کہا تھا کہ جس کو امریکی اخبارات نے جمعرات وجمعہ کو شائع کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیروت دھماکے کے بارے میں ایک اہم انکشاف کیا ہے کہ ان کے جنرلوں نے ان کو بتایا ہے یہ دھماکا نہیں بلکہ حملہ ہے۔ جمعہ کو رائٹر کی خبر کو تمام اخبارات نے لگایا جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوبارہ یہ معلوم کیا تو انہوں نے دوبارہ یہی جواب دیا کہ بیروت دھماکا ایک میزائل حملہ ہے۔ اس کے علاوہ وائٹ ہاؤس کے چیف آف ملٹری اسٹاف کے حوالے سے امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ وہ پوری طرح تمام باتوں کے گواہ ہیں۔ تمام صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک ایسا ہی حملہ ہے جس طرح 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے دوران ہوا تھا۔ اسی طرح4اگست 2020 دھماکے سے قبل15دن سے جاری اسرائیل اور حزب اللہ کی کشیدگی کے بعد ایک مرتبہ پھر بیروت کو تباہ برباد کر دیا گیا۔ بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کے بارے میں بہت کم بتایا جارہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دھماکے سے زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے نیچے ہزاروں افراد دبے ہوئے ہیں اور یہاں ریسکیو کا کوئی خاص انتظام نہیں ہے۔ علاقے میں بجلی گزشتہ دو ہفتوں سے نہیں ہے۔ فرانس کے صدر امانوئل میکرون پہنچے اور بغیر کسی حفاظتی دستے کے زخموں اور دکھوں سے چور، روتے بلکتے لبنانیوں سے گلے لگ گیا اور ان سے ملکر خوب رویا اور یقین دلایا کہ اب جو مدد دی جائے گی اس میں مقامی لیڈران کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ لبنانی اس کافر کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور یہی کہتے رہیں گے۔ جو درد دیا اپنوں نے دیا، غیروں سے شکایت کون کرے۔ دھماکے والی رات ملک کے عیسائی صدر عون مشل نے کہا تھا کہ دھماکے کی وجہ 2750ٹن امونیم نائٹریٹ بنا جو وہاں غیرمحفوظ انداز میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔ کسٹم چیف بدری داہر نے کہا ہے کہ ان کی ایجنسی نے ان کیمیکلز کو ہٹانے کیلئے کہا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے ہٹایا کیوں نہیں گیا، اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ صدر کا کہنا تھا کہ اس خوف کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا جس نے گزشتہ شب بیروت پر حملہ کیا، یہ شہر تباہ ہوگیا۔ یہ دھماکا اتنا شدید تھا کہ پورا شہر ہل کر رہ گیا اور اس کے اثرات 240کلومیٹر دور بھی محسوس کئے گئے جہاں لوگوں نے اسے زلزلہ سمجھا۔ اس بندرگاہ پر لبنان پہنچنے والی گندم اور دیگر کھانے پینے کی اشیا موجود تھیں اور اس سے80فیصد لبنانیوں کی خوراک کا انتظام کیا جانا تھا۔ لبنان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک روٹی کی قیمت2000ہزار لبنانی لیرا ہے۔ 5اگست 2020 کو یروشلم پوسٹ نے ایک چونکا دینے والی خبر لگائی جس نے ٹرمپ کی باتوں کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ دھماکا نہیں بلکہ حملہ ہے۔ یروشلم پوسٹ کا کہنا ہے کہ پورٹ پر رکھے 2750ٹن امونیم نائٹریٹ کے بارے میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اسرائیل کو دھمکی دی تھی کہ وہ اس امونیم نائٹریٹ سے اسرائیل پر حملہ کر دیں گے اور پورے اسرائیل کو اُڑا دیں گے۔ اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ جس کو دھمکی دی گئی تھی کہ امونیم نائٹریٹ سے اُڑا دیں گے۔ اسی نے اس امونیم نائٹریٹ کے اس ڈھیر کو اُڑا دیا اور پورے بیروت کو تباہ وبرباد کر دیا۔ لبنانی ریڈ کراس کے سربراہ جارج قیطانی کا کہنا ہے کہ ہم ایک بہت بڑی تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف زخمی اور لاشیں ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کس قدر ہو سکتی ہے۔ لبنان میں طرزحکومت کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ لبنان میں 18مذہبی فرقوں کو دستور میں قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور ان کو کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ بنایا گیا ہے، مختصراً یہ ہے کہ لبنان کا صدر عیسائی، وزیراعظم سنی اور اسپیکر شیعہ ہوتا ہے۔ 1945میں ناانصافی پر بنایا گیا طرزحکومت لبنان کی اکثریت کو تباہ وبرباد کر گیا۔ اس سلسلے میں یہ بتاتا چلوں کہ حزب اللہ نے دوسال سے لبنان میں انتخابات نہیں ہونے دئیے اور اپنی پسند کی حکومت بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ 15 دن سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان شدید کشیدگی جاری تھی اور2006 میں بھی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان شدید کشیدگی کی وجہ سے33دن تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا، اس جنگ اور4اگست 2020 کے بم دھماکے میں بہت حد تک یکسانیت ہے کہ: اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان شدید کشیدگی کے دوران لبنان کے وہ علاقے جہاں حزب اللہ اور عیسائی آبادی ہیں مکمل محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح 2006 میں33دن جنگ کے دوران اسرائیل کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا اور اس کے برعکس فلسطینی اور لبنانی وزیراعظم کے علاقوں میں بدترین تباہ کاری اور سیکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں سامنے آئی تھیں اور یہی وہ علاقے ہیں جہاں اس وقت بھی اربوں کی معاشی تباہی سے عوام کو دوچار ہونا پڑا ہے۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے