2 250

مہاتیر محمد، ملائیشیا کا مردِحُر

ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں پانچ اگست کو یکجہتی کشمیر کے نام سے منعقد ہونیوالے ایک سیمینار میں بھارت کے حوالے سے جرأت مندانہ لب ولہجہ اپنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنرل اسمبلی میں انسانیت کیلئے کشمیری عوام کیساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ کشمیر پر خاموش رہنا کوئی آپشن نہیں کشمیری عوام سخت محاصرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔ مہاتیر محمد کا کہنا تھا کہ بھارت علاقائی بدمعاش کا کردار چھوڑ کر ایک ملک کے طور پر سامنے آئے۔ میں نے جنرل اسمبلی میں بھارت کے بارے میں جو کچھ کہا اس پر کبھی معافی نہیں مانگوں گا۔ انہوں نے اس مؤقف کے باعث ہونے والے معاشی نقصان کا ذکر بھی کسی تاسف اور احساس زیاں کے بغیر کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے مہاتیر محمد کو یہ موقف اپنانے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مہاتیر محمد کو سابق ہوئے کئی ماہ ہوگئے ہیں مگر وہ اب بھی حق، سچ اور اصول کی راہ کے راہی ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جن معدودے عالمی قائدین نے اس عالمی نظام کے تضادات پر گہری ضربیں لگائیں اور ان تضادات کو اُجاگر کیا ان میں ملائیشیا کے مردآہن ڈاکٹر مہاتیر محمد شامل تھے جنہوں نے اس فورم پر نہ صرف کشمیر اور فلسطینی عوام کی حالت زار پر کھل کر بات کی بلکہ ان دونوں اقوام کو اس حال تک پہچانے والے دو عالمی بدمعاشوں کے روئیے اور کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ آواز بلند کرنے والوں میں عمران خان، طیب اردگان، حسن روحانی نمایاں تھے۔ طیب اردگان اور مہاتیر محمد کو مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہونے کی معاشی قیمت بھی چکانا پڑی مگر آفرین ہے ان مردان حُر پر جنہوں نے اپنا موقف واپس لینے سے صاف انکار کیا۔ بھارت ملائیشیا کے پام آئل کا سب سے بڑا خریدار تھا مہاتیر محمد کی تقریر کے بعد بھارت نے بیان واپس لینے یا پام آئل کے معاہدے منسوخ کرنے کی دھمکی دی۔ مہاتیر محمد نے اس شرط کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا اور نتیجے میں بھارت نے ملائیشیا کا پام آئل خریدنا بند کر دیا۔ ایک ایسے ماحول میں یہ جرأت رندانہ تھی کہ جب دنیا نے اپنی آنکھوں پر معاشی مفادات کی پٹی چڑھا رکھی ہے۔ انصاف، اصول، سچ، حق انسانیت ہر چیز کو اسی معاشی مفاد کی عینک سے دیکھا جا رہا تھا اور تجارت انسانیت پر غالب آگئی ہے۔ اس ماحول میں کچھ دیوانے ایسے ہیں کہ جو دنیا کو اصول، انصاف کی عینک سے دیکھنے پر اصرار کر رہے ہیں مہاتیر محمد انہی میں ایک ہیں۔ مہاتیر محمد نے جس وقت جنرل اسمبلی میں بھارت کو للکارا تو عمران خان کی طرح ان کی حکومت مانگے تانگے کی سیٹوں اور معاہدات کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ اس وقت امریکہ اور چین کی کشمکش ملکوں کی داخلی سیاست پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ امریکہ دنیا میں اپنے پسندیدہ، چنیدہ اور اپنے بینکوں میں دولت رکھنے والے اور اپنے شہروں میں جائیدادوں کے حامل سیاستدانوں کو ہر ملک میں اقتدار دلانا چاہتا ہے تاکہ ان کے ذریعے اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھائے۔ اس کے برعکس چین کی کوشش ہے کہ ہر ملک میں امریکہ کی اس خواہش اور کوشش کے آگے بند باندھا جائے۔بہت سے ملکوں میں جاری سیاسی کشمکش کا تعلق اس نادیدہ عالمی رسہ کشی سے ہے۔ مہاتیر محمد، عمران خان، طیب اردگان اور ایرانی حکومت اس وقت اپنے ملکوں کو امریکی اثر رسوخ سے آزادکرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ جنرل اسمبلی میں تقریر کے بعد مہاتیر محمد کیلئے حالات ایسے بنے کہ انہیں عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ان کے استعفے کے بعد اب ملائیشیا کا وزیراعظم کون ہے؟ کسی کو علم نہیں۔ اس کا کشمیر اور فلسطین پر کیا موقف ہے؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ نہ اس کے بعد ملائیشیا سے اس قدر توانا آواز بلند ہورہی ہے۔ عمران خان جب مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کا بار بار ذکر کرتے ہیں تو اس میں ”مہاتیر” بنائے جانے کی کوشش کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔ یہ کوشش ناکام ہوگئی اور عمران خان اس سے مضبوط ہو کر نکلے مگر مہاتیر محمد یہ وار نہ سہہ سکے۔ اس کے باوجود مہاتیر محمد طیب اردگان کی طرح ایک اصول پر کھڑے اور ڈٹے ہیں جس کا ثبوت پانچ اگست کو کشمیر سیمینار میں ان کا خطاب ہے۔ ہم فلسطین کیلئے اپنی خدمات اور خسارہ گنوا کر تھکتے نہیں مگر مہاتیر محمد نے ملائیشیا کے کسی صوبے کیلئے نہیں جزائر ملاکا کیلئے نہیں دور کشمیر کیلئے آواز بلند کی اور اس نعرہ مستانہ اور جرأت رندانہ کی معاشی اور سیاسی قیمت بھی چکائی۔ اس کے باجود حرف شکایت لبوں پر لائے اور نہ ہی احسان جتلانے کا انداز اپنایا کیونکہ وہ دنیا میں ایک اصول کیساتھ کھڑ ے ہیں جس بات کو صداقت سمجھا اس کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے معاش اور تجارت کی پرستش کا مذہب اپنانے سے انکار کیا ہے۔ اصول پر کھڑا ہونے کی قیمت چکانا پڑتی ہے کیونکہ اصول میں ہی انسانیت کی بقا ہوتی ہے۔ دنیا میں اگر بے اصولی کا اصول رائج ہوگیا تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں ایک بار پھر جنگل کا قانون آگیا اور حقیقت میں تجارت کے بت کے آگے سجدہ ریز کرکے دنیا کو جنگل کے قانون کی طرف ہی دھکیلا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس