4 150

تربیت یافتہ اُستاد

کل دوستوں کی محفل میں پروفیسر سیدولی نے یہ سوال اُٹھایا کہ سکول اساتذہ کی طرف سے مسلسل ایک سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ جب طلبہ 15ستمبر سے سکول آئیں گے تو ہمیں ابھی سے سکول آنے کا کیوں کہاں جارہا ہے؟ یہ تو ویسے ہی تنگ کرنے والی بات ہے جب سکول طلبہ سے خالی ہوں تو کیا ہم دیواروںکو پڑھائیں گے؟ یہ اور اس طرح کے دوسرے بہت سے گلے شکوے کھے جارہے ہیں، یقینا ہمیں بھی یہ بات سن کر بڑی حیرانی ہوئی کہ پچھلے پانچ مہینوں سے کورونا کی وجہ سے سب کچھ بند تھا، لوگ گھروں میں بیٹھ بیٹھ کر تنگ آگئے ہیں اب سب یہی چاہتے ہیں کہ باہر نکلیں اور کاروبار زندگی کا حصہ بنیں۔ ہم نے سکول اساتذہ کی وضاحت چاہی تو ان کا اشارہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی طرف تھا، نجی سکولوں کے اساتذہ تو کورونا وبا کے دنوں کی تنخواہوں کا رونا رو رہے ہیں وہ تو چاہتے ہیں کہ جلد سکول کھلیں تاکہ ان کی بند تنخواہیں جاری ہوسکیں۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اساتذہ کو چاہئے کہ وہ کچھ وقت لائبریری میں گزاریں، مطالعہ بڑھائیں، استاد کا پڑھا ہوا طالب علموں کیلئے بہت سودمند ہوتا ہے۔ طلبا وطالبات کا بہت سا وقت ضائع ہوچکا ہے، موجودہ حالات کے مطابق نصاب کی تقسیم کریں تاکہ طلبہ زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکیں۔ سمعی وبصری معاونات بھی اس حوالے سے بہت ضروری ہوتے ہیں، ان پر بھی کام ہونا چاہئے، سکول بند ہوئے عرصہ ہوچکا ہے بہت سے انتظامی معاملات توجہ طلب ہیں، اساتذہ اس حوالے سے سکول انتظامیہ کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ سکول میں صرف طلبہ کو پڑھانا تو نہیں ہوتا اور بھی بہت سے ضروری امور ہوتے ہیں جن پر توجہ دینی بہت ضروری ہوتی ہے۔ نصاب، طریقہ تدریس، امتحان، نقل، سفارش، استاد اور طالب علم کے درمیان فاصلہ اور تعلق، سرکاری اور نجی سکولوں کا موازنہ، تحقیقی صلاحیت اور اس کو ابھارنے کے طریقے، بولنا، پڑھنا، لکھنا، طلبہ کا مستقبل اور ایسے بے شمار موضوعات پر روزانہ بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اصلاح کیلئے تجاویز مرتب کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے، جو چیزیں بہتر ہیں ان کی نشاندہی کریں اور نتائج مرتب کئے بغیر بحث ختم نہ کریں، اس حوالے سے جتنی بھی بات چیت ہو بحث مباحثے، تبادلہ خیال کے بعد جو نتائج مرتب ہوں انہیں ضبط تحریر میں لائیں، یہ تیارکردہ رپورٹ سکول میں رکھیں پھر وقتاً فوقتاً اپنی کارکردگی کا جائزہ اس رپورٹ کے تناظر میں لیں تو یقینا معیار تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے یہاں معیارتعلیم کی بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے، بچے ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں ہم نے انہیں وقت دینا ہے، جدید خطوط پر انہیں زیورتعلیم سے آراستہ کرنا ہے، اب وہ زمانہ گزر چکا ہے کہ استاد طلبہ کو پہاڑے باآواز بلند دہرانے کا کہہ دیا کرتے تھے اور بچوں کا سارا دن ایک دونی دونی دو دونی چار کی گردان میں گزر جاتا تھا۔ آج بچوں کی تعلیمی نفسیات کے حوالے سے تحقیق کا کام بہت آگے بڑھ چکا ہے، اس حوالے سے اساتذہ کرام کا تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے، ایک اچھا تربیت یافتہ استاد ہی آج اپنے پیشے کا حق ادا کرسکتا ہے۔ پیشے پر یاد آیا درس وتدریش پیشہ نہیں ہے یہ تو ایک مشن ہے اور اسے مشنری جذبے کے تحت ہی سرانجام دیاجائے تو بات بنتی ہے۔ آج کے طالب علم کے پاس معلومات حاصل کرنے کے بیسیوں ذرائع ہیںآپ اسے سمعی اور بصری آلودگی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ ساری معلومات مفید تو نہیں ہوتی، ایک مرتبہ انگلینڈ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی ماہرتعلیم سے ہماری ملاقات ہوئی جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک اچھی اور مفید کلاس میں کون کونسی خوبیاں ہونی چاہئیں؟ تو ان کا جواب انتہائی مختصر تھا انہوں نے کہا کہ ایک اچھی کلاس میں طلبہ کی بات چیت کا دورانیہ 80فیصد ہونا چاہئے اور استاد صرف 20فیصد بولے۔ ہمارے یہاں کی درس وتدریس میں استاد ہی بولتا چلا جاتا ہے طلبہ کو بولنے کا بہت کم موقع دیا جاتا ہے بلکہ یوں کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمارے طلبہ کلاس میں بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ ان کو کلاس میں بات کرنے کی نہ تو تربیت دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو نت نئے سوال اُٹھانے والے ذہین بچوں کو اس بری طرح ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کروا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ کلاس میں سوال پوچھنے کی جرأت ہی نہیں کرتے۔ جب تک اساتذہ کرام درس وتدریس کو ایک مقدس مشن، صدقہ جاریہ اور ایک اہم قومی فریضہ سمجھ کر سرانجام نہ دیں تو بات نہیں بنتی۔ بل گیٹس نے ماڈل سکولوں کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن میں سب سے اہم بات اساتذہ کی تربیت ہے، ایک ہفتے میں کلاسوں سے زیادہ تربیت کے سیشن ہوتے ہیں، ان کا یہ ماننا ہے کہ استاد کیلئے اعلیٰ تربیت یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ ایک غیرتربیت یافتہ استاد اگر پورے ذوق وشوق کیساتھ بچوں کو پڑھانا بھی چاہے تو اس کا کیا فائدہ؟ اسے تو بچوں کی نفسیات سے باخبر ہونا چاہئے کیونکہ اس نے بچوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق زیورتعلیم سے آراستہ کرنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں