p613 83

تنازعہ کشمیر،اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری ادا کرے

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن واستحکام کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ جموں وکشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں، شملہ معاہدہ بھی اہم ہے۔ خطے میں علاقائی سلامتی کیلئے سفارتی اور سیاسی ذرائع کو بروئے کار لانا چاہئے، باہمی اور با معنی رابطوں سے ہی مشکل سے مشکل چیلنجز پر قابو پا یا جا سکتا ہے۔ سوموار کو دورہ پاکستان کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر فریقین درخواست دیں تو مینڈیٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ملاقاتوں کے دوران وولکن بوز کر کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے تفصیل کیساتھ آگاہ کیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال کا اقوام متحدہ نوٹس لے اور اپنا جائز کردار ادا کرے۔ وزیرخارجہ نے جنرل اسمبلی کے صدر کو بتایا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں مصروف ہے، کشمیر ایک عالمی تنازعہ ہے، سلامتی کونسل کی قراردادیں اس امر کی تصدیق کرتی ہیں۔ بھارت کا5اگست2019ء کا اقدام ان قراردادوں کی روح سے متصادم ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ جنرل اسمبلی کے صدر سے کشمیر، افغانستان امن، اسلامی فوبیا، غیرقانونی مالی بہائو اور ترقی پذیر دنیا کیلئے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خطے کی موجودہ صورتحال اور بالخصوص5اگست2019ء کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے بعد پیدا شدہ حالات کے تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر کا دورہ پاکستان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ وولکن بوزکر کی اسلام آباد میں موجودگی کے دوران پاکستانی قیادت نے کشمیری عوام کا مقدمہ ان کے سامنے رکھتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی سفارتی ترجمان کا حق ادا کیا۔خود وولکن بوز کر کے اس حوالے سے خیالات اور تجاویز بھی خوش آئند ہیں۔ اس مسلمہ حقیقت سے کوئی کورمغز ہی انکار کر پائے گا کہ جب تک تنازعہ کشمیر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیاء میں خطرات کم ہوں گے اور نا ہی تعمیر وترقی کے ان اہداف کے حصول کی طرف سنجیدہ توجہ مرکوز ہوگی جو غربت اور دیگر مسائل کے حوالے سے بہت ضروری ہے۔ پاکستان اور کشمیری عوام کا اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل سے یہ شکوہ بجاطور پر درست ہے کہ جنوبی ایشیاء کے اس حساس ترین مسئلہ کو عالمی ادارے نے وہ اہمیت کبھی نہیں دی جو دنیا کے دیگر خطوں کے مسائل کو عموماً دی جاتی رہی اور دی جاتی ہے۔ سیاسیات عالم کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ سلامتی کونسل کو اپنی قراردادوں پر عمل کروانے کیلئے جو اختیارات حاصل ہیں ان پر عمل سے گریز کی راہ اختیار کی گئی۔ اس گریز کی وجوہات اور پس پردہ معاملات پر بحث اُٹھانے سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ اب عالمی ادارے کو مسلسل یاد دہانی کروائی جائے کہ اگر اس نے ماضی کی طرح کی ڈھل مل پالیسی کو ہی اپنائے رکھا تو مقبوضہ کشمیر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی جنوبی ایشیاء کے ہٹلر اور بھارتی فوج کا کردار ہٹلر کی نازی تنظیم گسٹا پو جیسا ہے۔ کشمیری تحریک مزاحمت کے حالیہ چار عشروں کے دوران ایک لاکھ سے زیادہ مردوزن اور بچے بھارتی گسٹا پو کی بربریت کا شکار ہو کر قبروں میں جا سوئے۔ 5اگست2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کے بھارتی اقدام کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیردنیا کی سب سے بڑی اور خطرناک جیل بنا ہوا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران اپنے زیرقبضہ کشمیری علاقے میں بھارت نے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کیلئے جن جرائم کا ارتکاب کیا، بین الاقوامی برادری کی ان خاموشی نے بھارتی گسٹا پو کو کھل کھیلنے کے مواقع دیئے۔ اس کی ایک تازہ مثال یہ ہے کہ چند دن قبل بھارتی حکام نے دعویٰ کیا کہ سیکورٹی فورسز نے کشمیری حریت پسندوں کے ایک گروپ کو فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہلاک کردیا ہے، اس دعویٰ کی ہنڈیا سوموار کو اس وقت پھوٹ گئی جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ جن چار افراد کو دہشت گرد قرار دے کر مارا گیا وہ درحقیقت عام محنت کش کشمیری تھے۔ انہیں قتل کر کے سیکورٹی فورسزنے ڈرامہ رچایا تاکہ دنیا کو گمراہ کرنے کیساتھ ساتھ اپنے لئے مراعات حاصل کی جائیں۔ کشمیری عوام کیلئے باعث اطمینان بات ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر نے دورہ پاکستان کے دوران زمینی حقائق تاریخ اور اصلاح احوال کے عمل کی بنیادی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا۔ یہ بجا ہے کہ کشمیریوں کو نسل کشی سے محفوظ رکھنے اور اپنے ہی خطے میں ریڈ انڈین بنائے جانے کی بھارتی پالیسی کا راستہ نہ روکا گیا تو جنوبی ایشیاء میں بحران خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جس کی طرف پاکستانی قیادت نے تفصیل کیساتھ اپنا موقف اور کشمیریوں کی حالت زار بارے انہیں آگاہ کیا۔ اس مرحلہ پر یہ عرض غلط نہ ہوگا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا نوٹس لیں اور یہ نوٹس کسی بڑے انسانی المیہ کے رونما ہونے سے قبل لیا جانا ضروری ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ عالمی ادارہ اس حوالے سے اپنا فرض ادا کرے گا۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں