1 210

پاکستان تنہا نہیں ہے

ٹائیگر فورس مخالف سیاسی قوتیں یہ الزام تراشی کرتی ہیں کہ پاکستان خارجہ پالیسی کی وجہ سے تنہا رہ گیا ہے جبکہ ٹائیگر فورس کے چیف عمران خان نیازی اور ان کے نورتن بار بار ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہہ رہے ہیں کہ عالمی برادری میں پاکستان تنہا ہرگز نہیں ہے بلکہ بھارت تنہا رہ گیا ہے۔ بات تو جی کو لگتی ہے کیونکہ پوری دنیا کے مائی باپ چاہے وہ کاغذی طور پر ہی صحیح ہیں تو یعنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوز نے کہا ہے کہ اگر فریقین درخواست دیں تو مینڈیٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں جبکہ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر سے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ یہ تنازع سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ یہ بات درست ہے، سات دہائیوں سے اس سنگین مسئلے کی کتنی ہی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں اب تو یہ بات صاف ہوجانی چاہئے کہ اقوام متحدہ نے سابق درخواستوں پر کیا کردار ادا کیا ہے، مشترکہ پریس کانفرنس میں وولکن بوزکر کا یہ کہنا ہے کہ کشمیر کا حل سفارتی ذرائع سے ممکن ہے، چلو یہ بھی مان لیتے ہیں لیکن ماضی میں تاریخ گواہ ہے کہ ایسی تمام سفارتی کاوشیں بھارت سبوتاژ کر چکا ہے، اصولی بات تو یہ ہے کہ جب بھارت اقوام متحدہ دہائی دیتا گیا تھا اور سلامتی کونسل نے اس بارے میں قرارداد منظور کی تھی جس کے تحت کشمیر کے عوام کے حق خوداختیاری کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور اس حق کے استعمال کیلئے کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کا حکم دیا گیا تھا، اب سلا متی کونسل بھارت سے کیوں استفسار نہیں کرتی کہ استصواب رائے پر عمل درآمد سات دہائیوں کے بیت جانے کے باوجود کیوں نہیں ہوا، صرف ان دو باتوں پر کہ اقوام متحدہ کے صدر نے کشمیر کی گھتی سلجھانے کیلئے سفارتی ذرائع کا راستہ دکھا دیا ہے اور کورونا کی وباء سے چھٹکارہ پانے پر کہہ دیا ہے کہ دنیا کو کورونا سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی کوششوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ وولکن صدر جنرل اسمبلی اقوام متحدہ جو یہ فرما رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے نتھی ہے، اگر یہ مسئلہ حل ہوجائے تو جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو جائیگا، یہ بات سو فیصد درست ہے، اسی طرح جس طرح افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کے امن سے وابستہ ہے، لیکن یہاں ایسا بھی ہے افغانستان کے امن سے جنوبی ایشیا کیساتھ ساتھ وسطی ایشیا کا بھی امن وابستہ ہے اور اس کی زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وولکن کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس خطے کے امن کیلئے خطرات کا باعث کون ہے۔ بنگلہ دیش، مالدیپ، بھوٹان، نیپال کے علاوہ چین جیسی قوت کیساتھ پنگاں کس نے لے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر کیساتھ پریس کانفرنس کے دوران وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک سال میں مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل میں تین بار زیربحث آنا بڑی کامیابی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جنرل اسمبلی بھی زیربحث آئے جو اقوام عالم کا سب سے اہم پلیٹ فارم ہے۔ یہاں شاہ صاحب سے بھول ہو رہی ہے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان ایک سال کے دوران مسئلہ کشمیر تین مرتبہ سلامتی کونسل کی زینت بنا چکا ہے تاہم اس سے پہلے بھی تو کئی مرتبہ یہ مسئلہ اسی فورم پر زیربحث لایا جا چکا ہے، زیربحث آنے کے بعد کیا ہوا وہی ڈھاک کے تین پات اور بس، اس حقیقت سے بھی نسیاں نہیں ہونا چاہئے کہ گزشتہ دو سالو ں میں پا کستان کی خارجہ پالیسی کی کیا بڑی کامیابی رہی، ماضی میں کئی ممالک کشمیر کے مؤقف پر پاکستان کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں، اگر ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو ماضی میں جو ممالک پاکستان کی مسئلہ کشمیر کی پالیسی پر حمایت کرتے رہے وہ اس مرتبہ زبانوں پر تالے لگائے چپ ہیں بلکہ بھارت کو تقویت پہنچاتے رہے ہیں۔ وہ ایک ملک ترکی ہے کہ جس کے صدر طیب اردگان نے کھل کر کشمیریوں کی حمایت کی۔ اس طرح حمایت کرنے پر ترکی اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے بھی جنم لیا، جہاں تک ترکی کا تعلق ہے وہ ایک حد تک کشیدگی کی فضاء برقرار رکھ سکتا ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کی ڈونڈی پیٹنے والوں کو معلوم نہیں کہ دنیا میں تین ایسے ممالک تھے ترکی، سعودی عرب اور چین جو پاکستان کے حکمرانوں سے غرض نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کو پاکستان کے عوام سے مودت رہی، آج یہ صورتحال ہے کہ سی پیک کے حوالے سے چین اور سعودی عرب کے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کسی دوسری قسم کی آہنگ کی گھنٹی بجارہی ہے، البتہ ایک اہم غیرملکی شخصیت اور ہے وہ ہے ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی جنہوں بہت کھل کر کشمیر کے معاملے پر بھارت کو ٹوکا ہے لیکن یہ ٹوک بھی ایسے وقت ہے جب وہ اقتدار میں نہیں ہیں، اس کو ان کی ذاتی رائے ہی قرار دیا جائے گا، علاوہ ازیں یہ بیان ایک ایسے وقت آیا ہے کہ وہ اپنی عمر کی سنچری میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے جارہے ہیں اور شائد پارٹی کیلئے ملائیشیا کے عوام کے جذبات میں جو پاکستان کیلئے انس بھرا ہوا ہے وہ اس سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہوں۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی