3 154

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا؟

دعویٰ درست ہے یا غلط یہ تو تحقیق کے بعد ہی پتہ چلے گا، تاہم اس دعوے نے بھارت میں ہلچل ضرور پیدا کر دی ہے اور خبروں کے مطابق نیپالی وزیراعظم کے بیان پر انڈیا چیخ اُٹھا ہے، نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ رام ایودھیا (بھارت) میں نہیں بلکہ جنوبی نیپال کے علاقے ایودھیا پوری میں پیدا ہوئے، اس خبر کی تفصیل پر آگے چل کر بات کرتے ہیں تاہم اس نے مجھے ماضی میں ضرور پہنچا دیا ہے اور یہ غالباً60ء کی دہائی کے نصف آخر کی بات ہے جب ترکی کے ایک محقق نے باقاعدہ دستاویزی ثبوتوں کیساتھ یہ دعویٰ کیا کہ انگریزی زبان کا عالمی شہرت یافتہ ڈرامہ نگار اور شاعر دراصل مراکش سے تعلق رکھتا تھا،جو ایک طویل عرصے تک انگلستان کے دارالحکومت لندن میں مراکش کے سفارتی خدمات سرانجام دیتا رہا اور اس کے سفارتکاری ہی کا نتیجہ تھا کہ نہ صرف انگلستان اور مراکش کے تعلقات نہایت دوستانہ تھے بلکہ جب ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لندن میں مستقل رہائش کی خواہش ظاہر کی تو اس کو وہاں رہنے کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی، محقق نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر جو دعوے پیش کئے ان کے مطابق مراکش کے مذکورہ سفیر جس کا اصل نام شیخ زبیر تھا کی ویسٹ منسٹر ایبے (قبرستان) میں قبر پر صلیب (کراس)کی بجائے گول چاند یعنی چودھویں کے مکمل چاند کی شکل کا کتبہ نصب ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیکسپئر عیسائی نہیں بلکہ مسلمان تھا کیونکہ قبر کے کتبے پر چاند کا نشان اس زمانے میں مسلمانوں کی قبروں پر کندہ کیا جاتا تھا۔ البتہ ان کے نام شیخ زبیر کو انگریزی میں (Shakes peare) شیکسپئر کی تختی پرانی ہونے کی وجہ سے صاف پڑھی نہیں جارہی ہے مزید یہ کہ شیکسپئر کے کئی ڈراموں کے کردار اور کہانیوں کو غور سے دیکھا جائے تو ان میں جن محلاتی سازشوں کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ اس دور کے مراکش کے شاہی محلات میں طرزحکمرانی اور درباری سازشوں کی داستانوں کے بہت قریب ہیں’اسی طرح چند مزید دعوے بھی کرتے ہوئے محقق نے استدعا کی تھی کہ شیخ زبیر کی میت نکال کر اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان لے جائی جائے کہ پورا عالم اسلام یقینا ان کی اس تجویز کی حمایت کرے گا۔ یہ تحقیقی رپورٹ سامنے آئی تو کئی مسلمان ملکوں میں اس پر بحث شروع ہوئی جبکہ لندن سے شائع ہونے والے ایک بااثر اخبار دی ٹائمز نے اس پر ادارتی کالموں میں تبصرہ کرتے ہوئے تحقیقی مقالے کو بڑی حد تک قابل توجہ دیتے ہوئے جو اداریہ تحریر کیا اس پر یہ سرخی جمائی تھی (Save our shakespeare) ہمارے شیکسپئر کو بچائو چونکہ اس حوالے سے ایک اہم مضمون اس دور میں (یہ میرے کالج کا دور تھا) پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں چھپا تھا اس لئے تب میری نظرسے گزرا تھا اور میرے حافظے میں کچھ کچھ اب بھی محفوظ ہے’اس مسئلے پر کچھ عرصہ توبحث چلتی رہی مگر ایک تو مسلمان اہل علم اور دانشوروں نے اسے زیادہ توجہ نہیں دی اور شاید وہ اسے محقق کی جانب سے دیوانے کی بڑ سمجھتے رہے اور کچھ مغرب والوں نے اپنے ”سیکسپئر” کو بچانے میں زیادہ دلچسپی لی یہ سوچ کر کہ بقول ناز مظفر آبادی
اگر نہ روکا گیا اب ندی کے دھارے کو
تو آتی جائیں گی پھر بستیاں کٹائو میں
ان کی مدافعانہ تدابیر سے کچھ عرصے بعد یہ دعویٰ اپنی موت آپ مرگیا اوریوں انگلستان کا شیکشپئر مسلمان ہونے سے بچ گیا، یعنی بقول شاعر
وے لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیئے
پیدا کئے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر
اب آتے ہیں نیپالی وزیراعظم کے اس دعوے کی جانب کہ رام ایودھیا (بھارت) میں نہیں بلکہ جنوبی نیپال کے علاقے ایودھیا پوری کے علاقے میں پیدا ہوئے تھے’ یوں نیپال کے وزیراعظم نے بھارت سے رام کو چھین کر پوری تاریخ کوتلپٹ کر دیا ہے،نیپال کے وزیراعظم کے پی شرما اولی نے ایودھیا پوری کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ہندو رہنمائوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ ایودھیا پوری کو رام کی جائے پیدائش کے طور پر پروموٹ کریں’ نیپالی وزیراعظم نے ایک ماہ کے عرصے میں دوسری بار رام کی جائے پیدائش سے متعلق گفتگو کی ہے جس پر بھارت میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا، یاد رہے کہ آج کل بھارت اور نیپال کے مابین سرحدی تنازعہ چل رہا ہے اور نیپال نے اپنی حدود کا جو نیا نقشہ شائع کیا ہے اس میں بھارت سے متصل بعض سرحدی علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر کے بھارت کو پریشان کر رکھا ہے جس طرح لداخ کے علاقوں پر چین نے بھارت کے ناک میں دم کر رکھا ہے اس سے برصغیر کی پوری تاریخ تبدیل ہونے کے آثار پیدا ہو رہے ہیں یعنی رام کی جنم بھومی کے حوالے سے رام مندر کے بارے میں بھارت کا دعویٰ بھی سراب ہو جائے گا۔ اس لئے دیکھتے ہیں کہ رام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں!

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''