p613 84

حکومت اور حزب اختلاف سے مؤدبانہ گزارشات

سیاسی عمل میں تیزی کیساتھ بڑھتی تلخی اور عدم برداشت کے پیش نظر یہ عرض کردینا از بس ضروری ہے کہ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو داخلی مسائل اور خارجی معاملات (خطے اور عالمی صورتحال اور درپیش مسائل) کو نظر انداز کرکے روایتی سیاست سے گریز کرنا ہوگا۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی شکایات و مطالبات یا حکومت کے ذمہ داران کے انداز تکلم اور الزامات ہر دو کے درست یا نا درست ہونے کی بحث میں اُلجھے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ معیشت کو لاحق خطرات کم ہوئے ہیں نا ان د وسرے مسائل کی شدت میں کمی ہوئی ہے جن سے عوام الناس بالخصوص نچلے طبقات کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ کسی بھی جمہوری سیاسی عمل کے آگے بڑھنے اور نظام ہائے حکومت کے استحکام کی مخالفت کی جاسکتی ہے نا ان عناصر کی حوصلہ افزائی جو ہر چند برس بعد کونوں کھدروں سے اپنے فارمولے لیکر نکلتے ہیں اور جمہوریت و نظام سے لوگوں کو بدطن کرنے لگ جاتے ہیں۔ اس امر سے انکار نہیں کہ پاکستانی سیاست اور نظام د ونوں بالغ نظری سے محروم ہیں اس محرومی کی کئی وجوہات ہیں اہم ترین عدم برداشت ہے۔ کوئی بھی اپوزیشن جماعت جب اقتدار میں آتی ہے تو اسے ویسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے وہ بطور اپوزیشن اپنی مدمقابل حکمران جماعت کو دوچار رکھتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ چار مارشل لاء اور دیگر مسائل و مشکلات سے گزری سیاسی قیادتیں فقط اپنے اپنے سچ پر مصر ہیں۔ تحریک انصاف کو وفاق اور دو صوبوں (تیسرے صوبے بلوچستان میں وہ مخلوط حکومت میں شامل ہے) میں برسر اقتدار آئے دو سال بیت گئے۔ ان دو سالوں کا زیادہ حصہ حکمران قیادت نے اس بحث کو اُٹھانے میں گزار دیا کہ ہمیں سب کچھ تباہ حال کھنڈرات کی صورت میں ملا پہلے مرحلہ پر ملبہ صاف ہوگا اور پھر بنیاد رکھی جائے گی تب کہیں جا کر تعمیرنو کا آغاز ہوسکے گا۔ اس بحث کے سرتالوں کی لے جاری تھی کہ رواں سال مارچ میں کورونا وبا نے آن لیا، ساڑھے پانچ ماہ اس وبا نے نگل لئے۔ معیشت اور دیگر شعبوں میں ان ساڑھے پانچ ماہ کے دوران جو ابتری پھیلی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے ساڑھے پانچ ماہ کے دوران غربت کی یکسر سے نیچے آباد شہریوں کی تعداد میں لگ بھگ 5فیصد اضافہ ہوا ہے، مختلف سروے اور سماج سدھار تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے’ بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور دوسری طرف وفاقی حکومت نے وسائل میں کمی کے پیش نظر وفاقی وزارتوں میں پچھلے ڈیڑھ دو برسوں سے گریڈ ایک سے سولہ تک کی ہزاروں اسامیوں کو ختم کردیا۔ کورونا وبا کے دنوں میں رکنے والا صنعتی عمل ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوا’ حکومت اپنے خسارے پر قابو پانے کیلئے پٹرولیم، بجلی اور سوئی گیس کی قیمتیں بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید دم توڑ چکی، یہ وہ حالات ہیں جن کے پیش نظر سیاسی میدان میں در آئی تلخی کو کم کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت و اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ مل بیٹھ کر ان مسائل سے عوام کو نجات دلانے کی حکمت عملی وضع کریں۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ مروجہ سیاست کا خمیر نظریات اور انقلابی مقاصد سے نہیں نفرت’ عدم برداشت’ الزام در الزام سے گندھا ہے اس کی مختلف وجوہات ہیں البتہ فی الوقت یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ سیاسی محاذ آرائی سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ بلا شبہ حکومت سے مطالبات کرنا اور اپنے مطالبات کے حق میں رائے عامہ منظم کرنا اپوزیشن کا دستوری و جمہوری حق ہے اور اس حق پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ مگر کیا حزب اختلاف کی قیادت ہو یا حکومت دونوں اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اہم ترین ذمہ داری ان سنگین مسائل سے عوام کو نجات دلانا ہے جو ان کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں؟ اسی طرح دیگر مسائل ہیں، خطے اور عالمی سطح پر در آئی تبدیلیاں ہیں اہم ترین بات یہ ہے کہ ابھی کورونا وبا کا خطرہ ٹلا نہیں، ٹیسٹوں کا عمل روک کر اگر یہ سمجھ لیا گیاہے کہ سب اچھا ہے تو یہ صریحاً غلط ہے، یہی وہ بنیادی مسائل مشکلات اور چیلنجز ہیں جنہیں مد نظر رکھتے ہوئے صاحبان اقتدار اور حزب اختلاف کے ذمہ داران سے یہ عرض کرنا ضروری ہوگیا ہے کہ اولین ترجیح عدم برداشت کی معروضی سیاست کو نہیں عوامی مسائل کے حل اور ان دیگر مشکلات سے نجات کیلئے حکمت عملی وضع کرنے کو دیجئے جو خطے اور عالمی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو درپیش ہیں۔ یہاں ہم حکومت کی خدمت میں بھی یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اس حقیقت کا ادراک کرلے کہ اپوزیشن سرحد پار سے آئے در اندازوں کو نہیں کہتے’ اندریں حالات میں مناسب ترین عمل یہ ہوگا کہ حکومت اور حزب اختلاف مل بیٹھیں۔ مسائل و مشکلات سے نکلنے کیلئے سوچیں لائحہ عمل وضع کریں۔ قانون سازی کی ضرورت ہے تو کسی تاخیر کے بغیر کریں، پچھلے ساڑھے پانچ ماہ کے دوران جنم لینے والے مسائل ہی کم تھے کہ گندم کا بحران تین ماہ بعد ہی دستک دے رہا ہے، بارشوں سے کپاس کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ کیا جمہوری سیاست کے دونوں فریق سنگین نوعیت کے ان مسائل سے چشم پوشی کرکے گرادو یا فتح کرلو کی سیاست سے عوام کی کوئی خدمت کر پائیں گے؟ ہماری گزارش یہی ہے کہ اس سوال پر غور کیجئے تاکہ نہ صرف سیاست میں تلخی کم ہو بلکہ عوام الناس کا نظام پر اعتماد بھی بحال ہو۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے