army chief prime minister

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ: ’وزیراعظم ریٹائرڈ جرنیل کو بھی فوج کا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں‘

پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ فوج جیسا ادارہ سربراہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگر اٹارنی جنرل برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر جمعرات تک عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کر دے گی۔

بی بی سی اردو کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ازخود نوٹس کی سماعت جمعرات کی صبح تک ملتوی کیے جانے سے قبل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں تین سمریاں بھیجی گئیں جن میں سے ایک میں تقرری کا ذکر ہے، ایک میں دوبارہ تقرری کی بات کی گئی ہے جبکہ نوٹیفیکیشن مدتِ ملازمت میں توسیع کا جاری کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنی غلطیاں تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی میں نہیں ہوتی جتنی اس معاملے میں کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں:  سٹاک ایکسچینج میں تیزی،100انڈیکس67ہزار پوائنٹس کی حد چھونے لگا

اس سے قبل اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرمی چیف ایک عہدہ ہے اور وزیراعظم کسی ریٹائرڈ جرنیل کو بھی فوج کا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں۔

انور منصور خان نے کہا کہ آئین میں وزیراعظم پر کوئی قدغن نہیں ہے اور وہ کسی بھی ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کر سکتے ہیں، چاہے انھیں ریٹائر ہوئے 10 سے 20 سال ہو گئے ہوں۔

اس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ آرمی چیف تین سال کے بعد کیسے ریٹائر ہو جاتا ہے جب اس کی مدت کا تعین ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر مدت کا تعین نہیں ہے تو پھر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے یہ استفسار کیا کہ موجودہ آرمی چیف کب ریٹائر ہو رہے ہیں تو پھر آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے والی ہے۔

مزید پڑھیں:  حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیونکہ یہ بہت اہم معاملہ ہے اور فوج کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن فوج کو یہ بھی کم از کم معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا کمانڈر کون ہو گا۔

بدھ کی صبح سماعت کے آغاز پر پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ملک کے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کا معاملہ انتہائی اہم ہے، ماضی میں جرنیل خود کو توسیع دیتے رہے اور اب یہ معاملہ عدالت کے سامنے آیا ہے تو اسے قانون کے مطابق ہی دیکھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں