دہی کھانا

دہی کھانا بریسٹ کینسر کا خطرہ کم کرے، تحقیق

بریسٹ کینسر خواتین میں سرطان کی سب سے عام قسم ہے اور پاکستان میں بھی اس کے کیسز کی تعداد میں ہر سال تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ غیر مصدقہ طور پر بریسٹ کینسر کے چند بڑے عناصر میں سے ایک نقصان دہ بیکٹریا سے جسمانی ورم کا پھیلنا ہوسکتا ہے اور دستیاب شواہد بھی اس کی حمایت کرتے ہیں۔ طبی جریدے جرنل میڈیکل ہائپوتھیسز میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ اس ورم کو روکنے کا سادہ اور سستا ٹوٹکا روزانہ دہی کھانا ہے۔

برطانیہ کی لنکاشائر یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ دہی میں صحت کے لیے فائدہ مند ایسے بیکٹریا ہوتے ہیں جو اس بیکٹریا سے ملتے جلتے ہیں جو بچوں کو دودھ پلانے والی ماﺅں میں پایا جاتا ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ دہی لیکٹوز بنانے والے بیکٹریا دودھ میں عام پایا جاتا ہے، جو خواتین کی چھاتیوں میں موجود نالیوں میں جگہ لے سکتا ہے جو بچوں کو دودھ پلانے کے بعد بھی غیر معینہ مدت تک رہ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پشاور، تین ارب روپے فنڈز ادویات کیلئے ریلیز کردئے گئے ہیں، سید قاسم علی شاہ

تحقیق کے مطابق یہ بیکٹریا خواتین کو بریسٹ کینسر سے بچانے میں مدد دے سکتا ہے کیونکہ بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین سے ہر سال اس بیماری کا خطرہ 4.3 فیصد کم ہوتا ہے۔ دیگر تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ دہی کھانا اور بریسٹ کینسر کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے اور نئی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کے مطابق اس کی وجہ ممکنہ طور پر نقصان دہ بیکٹریا کی جگہ فائدہ مند بیکٹریا کا لینا ہے۔

انسانی جسم میں مجموعی طور پر 10 ارب بیکٹریل خلیات پائے جاتے ہیں جن میں سے بیشتر بےضرر ہوتے ہیں مگر کچھ بیکٹریا جسم میں ورم کا باعث بنتے ہیں۔ دائمی ورم سے نقصان دہ جراثیموں کا خاتمہ ہو جاتا ہے مگر اس سے جسم کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ورم کی ایک سب سے عام قسم مسوڑوں کے امراض ہے جن کو غذائی نالی، قولون، لبلبے، مثانے اور بریسٹ کینسر سے جوڑا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  پھیپھڑوں کے کینسر سے بچانے والی ویکسین پر کام جاری

خیال رہے کہ خواتین میں ہلاکتوں کی دوسری سب سے بڑی وجہ چھاتی کا سرطان ہی ہے کیونکہ ہر 9 میں سے ایک خاتون میں اس جان لیوا مرض کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سجل اور احد کیلئے نیا اعزاز کیا؟

غیر مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر 8 ویں خاتون کسی نہ کسی طرح بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے، جب کہ سالانہ 40 ہزار خواتین اس مرض کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں