2 4

مشرقیات

حضرت مالک بن فضالہ حضرت حسن سے روایت کرتے ہیں: ” سابقہ امتوں میں ”عقیب” نامی ایک بزرگ لوگوں سے الگ تھلگ ایک پہاڑی پر خدا کی عبادت کیاکرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں خبر ملی کہ قریبی شہر میں ایک ظالم و جابر بادشاہ ہے جو لوگوں پر بہت ظلم کرتا ہے اور بلا وجہ ان کے ہاتھ پائوں اور ناک’ کان وغیرہ کاٹ ڈالتا ہے۔ جب آپ کو یہ اطلاع ملی تو آپ کے اندر نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کا جذبہ شدت سے اُبھرا اور اپنے آپ سے کہنے لگے: ” مجھ پر یہ لازم ہے کہ میں اس ظالم کو خدا سے ڈرنے کی تلقین کروں اور اسے عذاب الٰہی سے ڈرائوں۔” چنانچہ آپ اس جذبہ کے تحت پہاڑ سے اترے اور اس ظالم حکمران کے پاس پہنچ کر اس سے بڑے ہی جرأت مندانہ انداز میں فرمایا: ” تو خدا سے ڈر۔” وہ بد بخت وظالم بادشاہ آگ بگولا ہوگیا اور بڑے متکبررانہ انداز میں گستاخانہ جملے بکتے ہوئے اس بزرگ سے کہنے لگا: ” تیرے جیسا حقیر شخص مجھے خدا سے ڈرنے کا حکم دے رہا ہے’ میں تجھے اس گستاخی کی ضرور سزا دوں گا اور تجھے ایسی سزا دوں گا کہ آج تک دنیا میں ایسی سزا کسی کو نہیں دی گئی ہوگی۔”
پھر اس ظالم نے حکم دیا کہ اس کے پائوں سے اس کی کھال اتارنا شروع کرو اور سر تک اس کی کھال اتار لو تاکہ یہ دردناک عذاب میں مبتلا ہو اور اس کی روح تڑپ تڑپ کر تن سے جدا ہو۔ حکم پاتے ہی جلاد آگے بڑھے۔ اس عظیم مبلغ کو پکڑ کر زمین پر لٹایا اور اس کے قدموں سے کھال اتارنا شروع کردی۔ وہ صبر و شکر کاپیکر بنے رہے’ زبان سے اف تک نہ کہا۔ لیکن جب ان کی کھال پیٹ تک اتار لی گئی تو درد کی شدت سے ان کے منہ سے درد بھری آہ نکلی۔ انہیں فوراً حکم الٰہی پہنچا: ”اے عقیب! صبر سے کام لو’ ہم تجھے غم و حزن کے گھر سے نکال کر راحت و آرام کے گھر (یعنی جنت) میں داخل کریں گے اور اس تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر وسیع و عریض جنت میں داخل کریں گے۔” حکم الٰہی پا کر وہ عظیم مبلغ خاموش ہوگئے اور اس درد ناک تکلیف کو صبر سے برداشت کرتے رہے۔
جب ظالموں نے ان کی کھال چہرے تک اتار لی تو شدت درد سے دوبارہ ان کے منہ سے بے اختیار درد بھری آہ نکلی۔ انہیں پھر حکم پہنچا: ” اے عقیب! تیری اس مصیبت پر دنیا اور آسمان کی مخلوق رو رہی ہے’ تیری اس تکلیف نے فرشتوں کی توجہ تمہاری طرف کرادی ہے۔ اگر تو نے تیسری مرتبہ بھی ایسی ہی پردرد آہ بھری تو میں اس ظالم قوم پر دردناک عذاب بھیجوں گا اور انہیں شدید عذاب کا مزا چکھائوں گا۔ یہ حکم پا کر وہ خاموش ہوگئے اور پھر بالکل بھی منہ سے آواز نہ نکالی۔ اس خوف سے کہ کہیں میری آہ وزاری سے خدا میری اس قوم کو عذاب میں مبتلا نہ کردے۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی عذاب میں مبتلا ہو۔ بالآخر اس مرد مجاہد کی تمام کھال اتار لی گئی لیکن اس نے دوبارہ سسکی تک نہ لی اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''