logo

سخت سے سخت قانون سازی کی جائے

خیبر پختونخوا اسمبلی کی ذیلی پارلیمانی کمیٹی نے بچوں کیساتھ جنسی زیادتی میں ملوث افراد کی سزائے موت کی ویڈیو بناکر اس کی تشہیر سمیت دیگر اہم سفارشات میں کہا ہے کہ بچوں سے زیادتی میں ملوث افراد کی سزاناقابل معافی ہو۔ان کی سزا طبعی موت تک ہو، یہ بھی سفارش کی گئی سرعام پھانسی کی بجائے سزائے موت پانے والے مجرموں کی پھانسی کی ویڈیو اور آڈیو بنا کر اس کی تشہیر کی جائے۔ہراسانی یا زیادتی کے مرتکب افراد کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں ملازمت نہ دی جائے ۔ایسے افرادکاڈیٹا جمع کیاجائے اور نادرا کوبھی فراہم کیا جائے ۔ ملازمت دینے سے قبل ایسے مجرموں کاریکارڈ چیک کیاجائے ۔ زیادتی کے مرتکب افرادکوملازمت فراہم کرنے والے اداروں کے مالکان یا منتظمین کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے۔کمیٹی نے بچوں کی سمگلنگ میں ملوث افراد کیلئے عمر قید تک کی سزا تجویز کی، ٹریفکنگ میں ملوث افراد کو کم سے کم سزا چودہ سال جبکہ جرمانہ پچاس لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک تجویز کیا۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ جنسی زیادتی کے کیسز میں ڈی این اے کو نتیجہ خیز ثبوت تصور کیا جائے۔ پورنوگرافی میں ملوث افرادکو14سال قید50لاکھ روپے جرمانہ کی سفارش کی گئی۔علاوہ ازیں بھی کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں سے زیادتی کی روک تھام ممکن بنانے کیلئے جس قدر سخت قوانین بنا کر ان کوجلد سے جلد لاگو کیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ یہ مسئلہ اس قدر سنگین گمبھیر اور عام ہوتا جارہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ معاشرے میں اب تو اسے حد درجہ قبیح فعل سمجھا جارہا ہے اور نہ ہی اس کے مرتکبین کو گناہ سزااور رسوائی کا ڈر ہے جس قدر تیزی سے یہ سنگین اورشرمناک فعل ہورہا ہے اس کی روک تھام کیلئے آخری حد تک عبرتناک سزا کی ضرورت ہے۔ اگر قانون میں وسعت کی اس قدر گنجائش ہو کہ ملزم کو متاثرہ کے لواحقین کے حوالے کیا جائے اور وہ اسے اپنے ہاتھوں نشان عبرت بنادیں تو بھی دریغ نہیں ہونا چاہئے لیکن اس سے دیگر قسم کی قباحتیں عداوتیں اور بدلہ لینے اور خاندانوں میں تصادم جیسے ضمنی ناقابل برداشت حالات پیدا ہونے کا خدشہ ہے اسلئے اس قسم کی قانون سازی موزوں نہیں۔ خیبرپختونخوا میں قبل ازیں اس قسم کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہونے اور اب اچانک ان واقعات میں اضافہ کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ اس قسم کے ملزموں کو قانون کے حوالے کرنے کی وجہ بھی ہے۔ قبل ازیں اس قسم کے واقعات کا برموقع اقدام یا پھر جرگہ کے ذریعے بلا تاخیر سزا اور اس پر عملدرآمد ہونا تھا لیکن بہرحال بدلتے حالات میں روایتی معاشرے کے اقدارکو اپنانا اب ممکن نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حوالے سے قانون سازی کرتے ہوئے پختون معاشرے کے ان روایتی امور کو جتنا ممکن ہو سکے قانونی مسودے میں سمودینے کی سعی ہونی چاہئے تاکہ قانون کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جا سکے جہاں تک پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات کا تعلق ہے ان کی تمام تجاویز اورسفارشات کی اپنی جگہ اہمیت ہے یہ قانون جتنا جامع اور سخت ہوگا اور جتنا جلد اس پر عملدرآمد ممکن ہوگا اتنا ہی بہتر ہے۔جرم ثابت کرنے کیلئے تفتیش اور شواہد میں ملزم کی بجائے جرم ثابت کرنے کے مواقع کا خیال رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ایسی جامع قانون سازی کی جائے کہ ملزم اگر واقعی ملوث ہو اور ڈی این اے سے ثابت ہو تو اس ٹھوس سائنسی ثبوت کو ملزم کی سزا کیلئے کافی گردانا جائے۔ اس قسم کے الزام کو ثابت کرنے کیلئے دیگر ذرائع مشکل اور پیچیدہ ہوتے ہیں لیکن سائنسی شہادت میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہوتی اور یہ آسان بھی ہے اس لئے اسے پوری طرح اہمیت دی جائے ۔ ہر تھانے میں ایسے تربیت یافتہ پولیس اہلکار اور افسران ہر وقت موجود یا رابطے میں ہونے چاہئے جن کو سائنسی شواہد اکٹھی کرنے کی پوری طرح تربیت دی گئی ہو اور وہ اپنے کام میں ماہر ہوں جو بروقت فرانزک شواہداکھٹے کر کے ان کو پوری طرح محفوظ بنا کر لیبارٹری تک پہنچا سکیں۔ خیبرپختونخوا میں فوری طور پر اعلیٰ معیار کی فرانزک لیبارٹری کا قیام عمل میں لایا جائے۔حکومت جس قدر سخت قانون سازی کر سکتی ہے جلد سے جلد کرے اور اس کا نفاذ مئوثر بنانے کی بھی پوری منصوبہ بندی کی جائے نیز جرم ثابت کرنے کیلئے تمام معاون اقدامات اور انتظامات پر بھی توجہ دی جائے تاکہ کوئی کسر باقی نہ رہے ۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات