2026638 traing 1564740291

وزارت ریلوے نے سانحہ تیزگام کی انکوائری رپورٹ میں ‘خامیوں’ کی نشاندہی کردی

لاہور: وزارت ریلوے نے رحیم یار خان کے قریب تیزگام ایکسپریس میں آتشزدگی کے سانحے کی حال ہی میں جاری کردہ انکوائری (تحقیقاتی) رپورٹ پر مختلف اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے خامیوں پر مبنی اور جانبدارانہ قرار دے دیا۔

یاد رہے کہ 31 اکتوبر 2019 کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیزگام ایکسپریس پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب حادثے کا شکار ہوئی تھی اور آتشزدگی کے نتیجے میں کم ازکم 74 افراد جاں بحق اور 30 سے زائد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔

اگرچہ وزارت کی جانب سے رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم ریلویز ایکٹ کے تحت ٹرین حادثات کی تحقیقات کے لیے بااختیار ایک اعلیٰ دفتر فیڈرل گورنمنٹ انسپکٹر آف ریلویز اپنے موقف پر قائم ہے اور اس نے متعلقہ کوارٹرز سے منظوری لی تھی۔

تاہم وزارت میں موجود ایک سرکاری ذرائع نے بتایا کہ آئندہ دنوں میں وزیر ریلوے یا چیئرمین/سیکریٹری وزارت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کو مدنظر رکھتے ہوئے رپورٹ کی منظوری واپس لے سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘جب سے رپورٹ منظور ہوئی ہے پاکستان ریلوے کے ایڈیشنل جنرل منیجر کی ایک کمیٹی نے اس کا تفصیلی جائزہ لینا شروع کردیا ہے’۔

وزارت کی جانب سے دیے گئے تفصیلی تحریری جواب کے مطابق ایف جی آئی آر کی رپورٹ میں ایک سوال اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح اے سی سی بزنس کلاس (کوچ نمبر 11، انجن سے 5ویں) سے چلنے والی ہوا اتنی زیادہ کیسے ہوسکتی ہے جبکہ وہ کوچ 12 (انجن سے چوتھے نمبر پر) کے عقبی حصے میں تھی اور ٹرین اوپر (آگے) کی سمت میں بڑھ رہی تھی حالانکہ فزکس (طبیعیات) کے لا کے مطابق ایسی صورتحال میں ہوا کا دباؤ اکنامی کلاس کوچ 12 (انجن سے چوتھی) سے اے سی بزنس کلاس کوچ نمبر 11 (انجن سے 5ویں) کی طرف ہونا چاہیے تاہم اس (رپورٹ) میں اس کے برعکس بیان کیا گیا۔

مزید پڑھیں:  6 ججز کا خط، سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس آج دوبارہ ہوگا

اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر اموات کوچ 12 اور 13 میں ہوئیں، کوچ 11 میں نہیں۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ٹرین اس حد تک بھری ہوئی تھی کہ مرکزی گزرگاہ اور واش رومز سے متصل جگہ بھی بھری ہوئی تھی۔ وزارت کی جانب سے تحریری ردعمل میں پوچھا گیا کہ ایف جی آئی آر نے مختلف جگہوں پر کہا کہ ڈائننگ کار کانٹریکٹر نے کوچز کے درمیان خانوں میں مکمل انتظامات کے ساتھ عارضی باورچی خانے بنائے ہوئے تھے، تاہم اگر یہ خانے مسافروں سے بھرے ہوئے تھے تو تمام سہولیات کے ساتھ عارضی باورچی خانے کیسے بن سکتے تھے؟، یہ کسی بھی موقف پر واضح اشارے کے ساتھ تضاد ہے (لہٰذا) ثبوتوں کی بنیاد پر میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔

ساتھ ہی انہوں نے ایف جی آئی آر کی جانب سے فرانزک لیب اور اس کے لیب ٹیسٹ کے کردار کو بیان کیا، ‘ان کے مطابق انکوائری رپورٹ بہت واضح ہے کہ آگ کو بھڑکانے میں ایل پی جی سلینڈر کا کردار تھا، واقعے کے ثبوت ظاہر کرتے ہیں کہ آگ کی ابتدائی وجہ ایل پی جی سلینڈر نہیں تھی لیکن اس نے آگ کو صرف ایندھن فراہم کیا’۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی کا منبع افغانستان میں ہے، خواجہ آصف

خط میں کہا گیا کہ اس سلسلے میں انہوں نے فرانزک سائنس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ لیب نے آگ کی ابتدائی وجہ ایل پی جی سلینڈر نہ ہونے کی تصدیق کی تاہم فرانزک ٹیسٹ رپورٹ نے کسی بھی صورتحال کے شواہد سے متعلق بات نہیں کی کیونکہ یہ صرف گیس لیکیج اور کسی اگنیشن کی وجہ سے 2 سلینڈرز کے دھماکے کی نشاندہی کرتی ہے۔

وزارت کی جانب سے ایف جی آئی آر کی کچھ مسافروں کی جانب سے ٹرین کی چین کھینچنے، ڈرائیور کی جانب سے بریک لگانے، فرانزک سائنسز لیب سے مدد لینے، واقعے کے وقت، ایل پی جی سلینڈرز لے جانے والے تبدیلی جماعت کے اراکین کے عینی شاہدین، بچ جانے والوں سے گفتگو، فرانزک لیب کے لیے حاصل کیے گئے نمونے، افسران/اسٹاف کی غفلت، غلط استعمال یا بجلی کے نظام کا شارٹ سرکٹ، موبائل چارجنگ پوائنٹس کا غیرمجاز استعمال کرتے ہوئے الیکٹرک کیتلی وغیرہ کا استعمال، 220 واٹ کے پاور ساکٹ، ڈائننگ کار کے عملے کا نمایاں رویہ ( انکوائری سے بچنے کے لیے حربوں کا استعمال) وغیرہ سے متعلق انکوائری رپورٹ پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وزارت کی جانب اٹھائے گئے اعتراضات منطقی لگ رہے ، لہٰذا اے جی ایمز کی کمیٹی وزیر اور چیئرمین کو تجویز دے سکتی ہے کہ رپورٹ کی منظوری واپس لیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ‘ہم سانحے سے متعلق حقائق تک پہنچنے کے لیے صحیح فیصلے کے منتظر ہیں’۔