logo 2

بچوں کا تحفظ،قانون سازی کی بلا جواز مخالفت

بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افرادکو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظوری کے بعد اس کی مخالفت کو اگرچہ زیادتی کرنے والوں کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھنا تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن بہرحال ان کو سخت سے سخت سزاء دینے کی مخالفت اس قبیح فعل کے مرتکبین سے کسی نہ کسی طور نرمی برتنے کے حامی ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ابھی تو صرف قرار داد کی منظوری کا عمل ہے اسے بل کی صورت میں منظور ہو نا باقی ہے، اس حوالے سے معتدل مخالفانہ رائے اور ترمیم وتجاویز پیش کرنے میں قباحت نہیں اس کا ابھی مرحلہ بھی آنا ہے لیکن ایوان کی کثرت رائے سے منظورکردہ قرارداد کی خود وزراء کی جانب سے سخت مخالفت اور اپنے ہی ساتھی وزیرمملکت کے پیش کردہ قرارداد جس کی حزب اختلاف نے بھی تائید کی اس حوالے سے ایسا ردعمل جو دینی وعوامی حلقوں اور خاص طور پر متاثرین کے اہل خاندان کیلئے دل آزاری کا باعث ہو مناسب عمل نہیں۔اگر ہم جمہوریت کے اصول کی بنیاد پر اس معاملے کا جائزہ لیں تو جمہور کی رائے مقدم اور ایوان کی کثرت رائے پر قانون سازی ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی روک تھام کیلئے جتنی سخت قانون سازی کی جائے اتنا ہی بہتر ہوگا، جہاںتک اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا سوال ہے ان کا طرزعمل مختلف معاملات میں مختلف رہا ہے، پاکستان ہی میں پھانسی کی ایک سزاء پر ان کا ردعمل مختلف رہا دوم یہ کہ بھارت اور اسرائیل سمیت دنیا کے بعض ممالک مسلمانوں پر اور اپنے عوام پر جو ستم ڈھا رہے ہیں کیا اس کی اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے منشور میں گنجائش ہے۔پاکستان ہی کے پڑوس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کشمیریوں پر جس ستم کے مظالم ڈھارہا ہے اور تین ماہ سے زائد عرصے میں کشمیری عوام کرفیو، محاصرے اور نظر بندی کی جس کیفیت کا شکار ہیں اسرائیل فلسطینیوںپر جو مظالم ڈھارہا ہے اس پر اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اب تک کیا سنجیدہ اور ٹھوس ردعمل اختیار کیا ہے اور مظلوموں کی داد رسی کیلئے کیا ایسے عملی اقدامات کی مثال دی جا سکتی ہے، اگر ایسا نہیں تو پھر پاکستان میں ایک ایسے بد ترین جرم جس کی شدت اور سزاء سے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اختلاف نہیں اس حوالے سے محض قرارداد کی منظوری پر اتنا واویلا کیوں مچایا جارہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے جس قدر سخت اور باعث عبرت سزائیں دی جائیں اس کی ضرورت ہے۔گزشتہ چھ ماہ کے مختصر عرصے میں پاکستان میں بچوں سے زیادتی کے تیرہ سو واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کی تعداد اس سے کہیں بڑھ کر ہونے کا اندازہ ہے۔ملکی قوانین اور جرم ثابت کرنے کا نظام اس قدر پیچیدہ اورناکارہ ہے کہ اس سے مظلوم کی بجائے ظالم کو فائدہ حاصل ہوتا ہے، ملک میں زیادتی کے واقعات کے ذمہ دار عناصر کو سزا دینے کی شرح اس قدر کم ہے کہ اکثر ملزمان کو سزاء نہیں ہوپاتی جس سے متاثرہ خاندانوں کی مایوسی اور مزید مظلومیت کا احساس بڑھ جاتا ہے جبکہ زیادتی پر آمادہ عناصر مزید دیدہ دلیری پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بھی کئی واقعات پیش آئے ہیں کہ ایک ملزم یا اس کے ساتھی کوسزا نہ ہونے پر وہ مزید واقعات میں ملوث ہوتے رہے ہیں۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو اسلام میں سزا کا تصور فردواحد یا افراد کو جسمانی ایذا پہنچانا ہر گز نہیں بلکہ ایک مثالی سزا سے معاشرے میں مثال قائم کرنا ہے کہ جرم کیخلاف معاشرے میں خوف پیدا ہوجائے، جرم معاشرے کی بنیاد کیخلاف ہے اس کی سخت اور مثالی سزا میں ہی معاشرے کی بقاء ہے۔بچوں سے زیادتی کے مرتکبین کو سخت سے سخت انجام سے دوچار ہونا چاہئے، اس کے مخالفین ایک لمحے کیلئے اس بات پر غور کریں کہ اگر خدانخواستہ ان کے بچوں یا اہل خاندان میں سے کسی کیساتھ کوئی سنگین واقعہ پیش آئیتو خود ان کے احساسات کیاہوں گے اور ان کا ردعمل کیا ہوگا۔معاشرے میں بڑھتے واقعات کی روک تھام کیلئے سخت سے سخت قانون سازی کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں، سوشل میڈیا پر ایک سروے میں بھی ستانوے فیصد افراد نے سخت قوانین کی حمایت کی ہے۔جہاں تک سرعام پھانسی کی سزا کا تعلق ہے اگرچہ انصاف کا تقاضا اور مظلومین کی داد رسی کا تقاضا تو یہی ہے لیکن بہرحال اس حوالے سے تجاویز اور سفارشات کی گنجائش ہے اور ابھی جب قانون سازی کے مزید مراحل طے ہوں گے اس میں بھی اس حوالے سے تبدیلی اور نرمی کا امکان اپنی جگہ سزائے موت کی ہی سرے سے مخالفت کرنے والے عناصر بتائیں کہ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور ان کو قتل کرنے والوں کو اگر سخت سے سخت سزا نہ دی جائے تو انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے اور بچوں کو محفوظ کس طرح بنایا جائے گا۔ کیا بچوں کا تحفظ اور ان کو زیادتیوں کا شکار ہونے سے بچانا حکومت اور معاشرے کا فرض نہیں۔
مہنگائی کے مقابلے کا آخری چارہ کار
دنیابھر میں معاشی حالات کا تجزیہ کرنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح کو چھو گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا بنیادی سبب اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں گندم اور چینی کی قیمتیں خاص طور پر مہنگائی کا باعث بنیں جبکہ سبزیوں اور ٹرانسپورٹ کے نرخوں میں اضافہ سے بھی مہنگائی بڑھی۔آئی ایم ایف کی شرائط پر گیس وبجلی کے نرخوں میں بار بار اضافہ اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بین الاقوامی نرخوں کے برعکس باربار اضافہ کوئی پوشیدہ امر نہیں۔ پاکستان میں گندم اور چینی کی قیمتوں میں اچانک اور بے تحاشہ اضافہ کے پس پردہ منظم مافیا کا ہاتھ ہے۔ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ملک میں چینی کی قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا مگر اس کے باوجود ساڑھے تین لاکھ ٹن چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تھی جسے وزیراعظم نے روکنے کا حکم دیا، اسی طرح گندم اور آٹا کی سمگلنگ کے علاوہ ٹنو ں کے حساب سے برآمد کیا گیا اور ملک میں آٹے کے بحران کی چھاپ پر آٹا کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا وہ اب تک برقرار ہے اور حکومت کوشش کے باوجود اس پر قابو نہیں پا سکی ہے۔وزیراعظم کی بار بار کی ہدایات اور چیف سیکرٹریرز کو اقدامات کے احکامات پر عملدرآمد کی صورتحال حوصلہ افزا نہیں رہی جس کے باعث مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکا ہے۔ اضلاع کی انتظامیہ روایتی کارروائیوں اور بیانات کے ذریعے مہنگائی کی روک تھام کی سعی ہے جس کی ناکامی کی صورتحال سب کے سامنے ہے، اس ساری صورتحال میں اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی کابینہ کے تمام ارکان ہی کابازاروں اور منڈیوں کا اچانک دورہ کر کے عوام کو ریلیف دینے کا آخری چارہ کار باقی رہ گیا ہے اگرچہ یہ تجویز زیادہ مناسب معلوم نہیں ہوتی لیکن جب حکومتی مشینری اور انتظامیہ کے اقدامات غیر مئوثر اور ناکام ہوں تو آخری چارہ کار کے طور پر یہی صورت باقی دکھائی دیتی ہے۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی