2 20

مشرقیات

ایک آدمی حضرت ابراہیم بن ادہم کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا : ابو اسحاق ! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتا ہو ں ، مجھے کچھ نصیحت کیجئے ، جو میرے لیے تازیانہ اصلاح ہو ۔ ابراہیم بن ادہم نے فرمایا : اگر تم پانچ خصلتوں کوقبول کر لو اور اس پر قادر ہو جائو تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
ابراہیم بن ا دہم نے فرمایا : جب تم خدا کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میںسے مت کھائو ۔ آدمی نے کہا : تو پھر میں کہا ں سے کھائو ں ، جبکہ زمین کی ساری اشیا اسی کی پیدا کردہ ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم نے فرمایا : اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نا فرمانی کرے ؟
ابراہیم بن ادہم نے فرمایا : جب تم خدا کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو ۔
ابرہیم بن ادہم نے فرمایا :جب تم خدا کی نافرمانی کا ارادہ کرو، جبکہ تم اسی کا رزق کھا رہے ہو اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جائو ، جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہا ہو ”۔
ابرہیم بن ادہم نے فرمایا : اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رز ق کھائو ، اسی کی زمین پر رہو ، پھر اسی کی نافرمانی کرو ، جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر و باطن سے آگاہ ہے ؟ ۔
ابراہیم بن ادہم نے فرمایا : جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اور نیک عمل کا توشہ تیار کر لوں ۔ جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مئو خر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سیکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہو سکتی تو نجات کی امید کیوں رکھتے ہو؟
اس آدمی نے کہا : پانچویں خصلت بتائیں ۔
ابرہیم بن ادہم نے فرمایا : جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیں تو ان کے ہمراہ مت جانا ۔ اس آدمی نے کہا : وہ تو میری ایک نہ سنیں گے ۔
ابرہیم بن ادہم نے فرمایا تو پھر نجات کی امید کیوں کررکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کر تا ہوں اور خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتا ہوں ۔
ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید ارکان حج ادا کرنے کے بعدمدینہ منورہ پہنچا ، وہاں حضرت امام مالک کی علمی شہرت سن کران کی زیارت کا شوق پیدا ہوا ، چنانچہ بادشا ہ ہارون الرشید نے ان کے گھر میں زیارت و ملاقات کا پروگرام طے کیا اور ان کی مجلس میں حاضر ہوا ، اندر داخل ہونے سے پہلے امام مالک کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنی مجلس سے لوگوں کو اٹھادیں ، امام مالک اس پر آمادہ نہ ہوئے اور فرمایا : جب علم کو عوام الناس سے روکا جائے تو خواص کے لیے اس میں کوئی خیر (بھلائی ) باقی نہیں رہتی ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں