WhatsApp Image 2020 02 14 at 14.42.49

ترک صدر رجب طیب اردوان کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

اسلام آباد: ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ پاکستان کا دکھ ہمارا دکھ، پاکستان کی خوشی ہماری خوشی ہے۔ ترکی مسئلہ کشمیر کے پرامن اور بات چیت کے ذریعے حل کے موقف پر قائم رہے گا، مسئلہ کشمیر کا حلزطاقت یا جبری پالیسیوں سے نہیں بلکہ انصاف و حقانیت کے اصولوں سے ممکن ہے، پاکستان کے ساتھ ازل سے جاری ہمارے برادرانہ تعلقات تا ابد قائم رہیں گے، انسداد دہشت گردی میں ہم پاکستان سے تعاون آئندہ بھی جاری رکھیں گے، سرحدیں اور فاصلے مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتے، دنیا بھر کے مسلم بھائیوں کے دکھ درد میں شریک ہونا اور ان پر ہونے والے ظلم کے خلاف ان کا ساتھ دینا ہم سب کا فرض ہے، ہمارا ایمان ہے کہ ظلم کا مقابلہ نہ کرنا ظلم کرنے کے مترادف ہے، مسلم امہ دہشت گردی، جنگوں، مذہب پرستی، مفلسی اور غربت کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، پاکستان ترقی و خوشحالی کے سفر کی جانب رواں دواں ہے، اقتصادی ترقی کا عمل دنوں میں نہیں آتا۔ جمعہ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ میں پاکستان کے عوام کے معزز نمائندوں کی موجودگی کے توسط سے اپنے تمام بہنوں اور بھائیوں کو بڑے عزت و احترام سے سلام محبت پیش کرتا ہوں، پاکستان کے سرکاری دورہ کے موقع پر معزز ممبران سے مخاطب ہونا میرے لئے بڑی خوشی اور مسرت کا مقام ہے، آج ہمیں اس عظیم الشان ماحول میں ہمارے دلوں کو یکجا کرنے کا موقع فراہم کرنے پر میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں اور حمد و ثناء پیش کرتا ہوں۔ اس مشترکہ اجلاس میں مجھے خطاب کرنے کا موقع فراہم کرنے پر میں آپ سب کا الگ الگ حیثیت سے بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اپنے اس خطاب کا آغاز ہی سب سے پہلے آپ سب کو ترکی کے 8 کروڑ 30 لاکھ بہن بھائیوں، ترکی کی گرینڈ نیشنل اسمبلی میں عوام کی نمائندہ اراکین پارلیمنٹ کا بھی سلام پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرے اسلام آباد میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی جس طریقے سے پاکستان کے عوام نے گرمجوشی اور محبت سے ہمارا استقبال کیا، میں اس پر پاکستانی قوم اور پاکستان کے اعلیٰ حکام کے خلوص اور مہمان نوازی پر آپ سب کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ ہم یہاں پاکستان میں کبھی بھی اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ براعظم ایشیاء کے اہم مراکز میں سے ایک میں اور عالم اسلام کے اس جغرافیائی خطے میں اپنے آپ کو اپنے ہی گھر میں محسوس کرتے ہیں۔ ترکی اور پاکستان جیسے برادرانہ تعلقات دنیا میں شاید ہی دیگر ممالک یا اقوام میں دیکھے جا سکتے ہوں، آج پاکستان اور ترکی کے تعلقات جو سب کے لئے قابل رشک ہیں، دراصل تاریخی واقعات ہی کے نتیجہ میں مضبوط اور پائیدار ہوئے ہیں اور اسے حقیقی برادرانہ تعلقات کا روپ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلطنت غزنیہ کے بانی محمود غزنوی کے دور سے ترک اس وسیع جغرافیہ کا ایک حصہ بن چکے ہیں۔ سلطنت مغلیہ کے بانی ترکی النسل ظہیر الدین بابر اور دیگر مغل حکمرانوں نے موجودہ پاکستان سمیت تمام خطے پر تقریباً 350 سال حکومت کی اور ہماری مشترکہ تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے صدارتی نشان جس پر ترکوں کی جانب سے قائم کردہ 16 ریاستوں کے ستارے جگمگا رہے ہیں، ان میں سے ظہیر الدین بابر کی قائم کردہ مغلیہ سلطنت اور غزنویوں کی سلطنت کے ستارے چمک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو ادب کے عظیم شاعر مرزا اسد اﷲ خان غالب، تحریک خلافت کے روح رواں جوہر برادران، بلقانی جنگوں کے موقع پر سلطنت عثمانیہ کے فوجی دستوں کی مدد کرنے کے لئے آنے والے عبدالرحمان پشاوری جیسی ہستیاں ہماری مشترکہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جانے والی ہستیوں میں سے چند ایک ہیں۔ ترکی اور پاکستان کے تعلقات شاعر اعظم محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے قیمتی ورثہ ہی کے نتیجہ میں موجودہ دور تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1915ء میں جب ترک فوج ایک زبردست مزاحمت کے ساتھ آبنائے چناق قلعہ کا دفاع کر رہی تھی تو اس وقت محاذ سے 6 ہزار کلو میٹر دور اس سرزمین پر ہونے والے مظاہرے اور ریلیاں ہماری تاریخ کے ناقابل فراموش صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لاہور شہر میں ہونے والے ان تاریخی جلسوں کا مرکز نگاہ چناق قلعہ ہی تھا۔ ان جلسوں کا اہتمام کرنے والے منتظمین دراصل چناق قلعہ میں برسرپیکار ترک فوجیوں اور ترک قوم کی امداد کا مقصد لئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس روز مسلمان پورے لاہور کی سڑکوں اور گلیوں میں نکل آئے تھے۔ رجب طیب اردوان نے کہا کہ جب ہم زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو اس جغرافیہ میں ہمارے بھائی بہن اس دور کی نو آبادیات کے ظلم و ستم کا شکار تھے، تمام تر پریشانیوں اور خطرات کے باوجود میدانوں، گلیوں اور سڑکوں میں ہونے والی نمائشوں میں چناق قلعہ کے لئے امداد جمع کی جا رہی تھی، برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے ہاتھوں کے کنگن، چوڑیاں، بالیاں اور بزرگوں نے اپنی جمع کردہ پونجی تک عطاء کر دی تھی

مزید پڑھیں:  دھاندلی کی بجائے ووٹ اور پبلک کی سپورٹ سے ایوان بننا چاہئے، بیرسٹر گوہر