2 40

مشرقیات

سلیمان بن عبد الملک کا جب کفن دفن ہوگیا تو حضرت عمر بن عبد العز یز نے مسجد کار خ کیا ۔ آپ کے ہرماہ لوگ بھی ہو لیے ۔ مسجد پہنچ کر منبر کی زینت بنے اور لوگوں کا مجمع ہوگیا۔ پھر یہ تقریر فرمائی : ” لوگو! خلافت کے عہدے میں میر ی آزمائش ہوئی ہے ، جبکہ نہ تو میری یہ چاہت ہے نہ کوئی طلب ، اور نہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی مشورہ ہے ۔ تمہاری گردنوں پر جو میر ی بیعت کا بوجھ ہے ، میں اسے اتارتا ہوں ۔ تم لوگ اپنے لیے کوئی مناسب خلیفہ منتخب کر لو ”۔ یہ سن کر لوگوں کا ہجوم یک زبان ہو کر چیخ اُٹھا : ” ہم نے آپ کو چن لیا ہے اے امیر المومنین ! اور ہم آپ کی خلافت پہ راضی ہیں ۔ ” جب آوازیں کم ہوئیں حضرت عمربن عبدالعزیز نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور نبی کریم ۖ پر درود بھیجا اور تقریر کی : ”میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ اللہ کے تقویٰ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ۔ اور اپنی آخرت سنوارنے کے لئے اعمال صالحہ کر و کیونکہ جو آخرت کا متلا شی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دنیاوی امور کے لیے کفایت کر جاتا ہے ۔ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرلو ، اللہ تعالیٰ تمہارے ظاہری معاملات کی اصلاح فرمادے گا ۔ تم میں سے جو کوئی اپنے آبا و اجداد میں سے کسی پر فخر کرے گا وہ زندگی ہی میں موت کے شکنجے میں گرفتار ہوگا ۔ یہ امت اپنے پرور دگار کے معاملے میں کبھی اختلاف کا شکار رہی ، نہ اپنے نبی کے بارے میں ، اورنہ ہی اپنی کتاب (قرآن کریم ) کے بارے میں ۔ بلکہ اس امت کا اختلاف درہم و دینار میں ہوا ۔ اللہ کی قسم ! میں کسی کو ناجائز طریقے سے نہیں دوں گا اور نہ ہی کسی کا حق ماروں گا اور میں کوئی خازن نہیں ہوں ، بلکہ میں وہیں صرف کروں گا جہاں کرنے کا مجھے حق حاصل ہے ۔ لوگو! مجھ سے پہلے ایسے خلفا بھی گزرے ہیں ، جن کے ظلم و طغیانی سے بچنے کے لیے تم ان کی خدمت میں نا پائیدار محب اور الفت کا گلدستہ بطور نذرانہ پیش کرتے تھے ۔ (لیکن میری بان سن لو اور ) آگاہ ہو جائو ! اللہ کی معصیت و نافرمانی میں کسی مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ جو کوئی اللہ کی اطاعت و بندگی بجالا تا ہے ، اس کی اطاعت تو لازم ہے، لیکن اللہ کی نافرمانی کرنے والے کی اطاعت تو کجا ، اس کی حیثیت پر کاہ سے بھی زیادہ نہیں ، اس لیے اس کی کوئی اطاعت نہیں ہے ۔ میں تمہارے معاملے میں جب تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالائوں تم میری اطاعت کرنا لیکن جب میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت چھوڑ دوں تو تم پر میری کسی بھی اطاعت کا حق نہیں ۔ میں نے جو کچھ مناسب سمجھا ، کہا اور عظیم و برتر اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے مغفرت و بخشش کی دعا کرتا ہوں ۔ ” خطبے سے فارغ ہوئے تو آپ نے زمین کے دھمکنے کی آواز سنی ۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ لوگوں نے جوا ب دیا : اے امیر المو منین !یہ خلافت کی سواریاں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے لائی گئی ہیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا : مجھے ان سواریوں کی کیا ضرورت ہے ۔ میرا خچر لائووہ میری سواری کے لیے کافی ہے ۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان