2 46

صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا اعادہ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دورہ بھارت کے آخری دن ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر بہت سے لوگوں کیلئے طویل عرصے سے بہت بڑا مسئلہ چلا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مواقع پر دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ رواں برس جنوری میں انہوں نے ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران بھی اسی بات کا اعادہ کیا تھا۔ تاہم بھارت نے معاملے کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کو ایک بار پھر مسترد کردیا تھا۔علاوہ ازیں حال ہی میں بھارت کے وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے فریق کا کوئی کردار نہیں ہوگا کیونکہ یہ مسئلہ بھارت اور پاکستان کے مابین ہے۔امریکی صدر کی جانب سے مقبوضہ کشمیر بارے ثالثی کی پیشکش کا اعادہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ امریکہ اگر مسئلہ کشمیر کے حل میں دلچسپی رکھتا تو امریکہ ثالثی کی پیشکش کو ایک جملے اور بیان تک محدود نہ رکھتا بلکہ اسے عملی صورت دینے کی سنجیدہ سعی بھی کرتا۔ امریکہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں خلوص کے مظاہرے کی توقع ہی عبث ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے ثالثی کی پیشکش کو قبول کرنے میں جلدبازی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ بھارت نے بار بار یہاں تک کہ اب کے بار بھی اس مسئلے پر ثالثی قبول کرنے سے صاف انکار کیا۔ پاکستان کا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے موقف اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے اس مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کو اس کے کردار کی ادائیگی ہی کا مطالبہ ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ اس قرار داد کی منظوری کے برسوں گزر گئے چونکہ ہمارا موقف اصولی اور ا قوام عالم کی طرف سے تسلیم شدہ ہے اس لئے اس موقف سے احتراز ہمارے مفاد میں نہیں۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ کسی بھی تجویز اور مصالحت پر نہ صرف تیار نہیں بلکہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش میں ہے اور اب بھارت کیلئے مقبوضہ کشمیر خصوصی علاقہ نہیں بلکہ بھارت کاحصہ ہے۔ امریکہ کے صدر کو اگر ثالثی میں عملی دلچسپی ہوتی تو وہ ہر بار اس پیشکش کے اعادے ہی کا تکلف نہ کرتا۔ پاکستان کو اس قسم کے بہلاوے میں آنے کی بجائے مظلوم کشمیری عوام پر مظالم کی روک تھام کیلئے جہاں عالمی سطح پر اس مسئلے کو اُجاگر کرنے کیلئے نئی اور بہتر حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے وہاں پاکستان کو ملک کے اندر کشمیری بھائیوں کی حمایت و اعانت پر کمر بستہ آوازوں کو خاموش کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے تاکہ کم از کم اخلاقی طور پر تو کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت جاری رہ سکے۔
احتیاطی تدابیر اور اقدامات سے پہلو تہی
سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے غیرملکی ایئر لائنز کو اپنے مسافروں کے ہیلتھ ڈکلیریشن فارم جمع کرانے کا پابند بنانے کا اقدام ایک ممکنہ احتیاط کے طورپر مناسب قدم ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کورونا وائرس کاشکار افراد کے ملک میں داخلے کے حوالے سے جو اقدامات حکومت کی طرف سے کئے گئے ہیں یا پھر جن کا دعویٰ کیا جاتا ہے وہ سوائے ایک آلے کو پیشانی پر تان کر مسافر کا ٹمپریچر چیک کرنے سے زیادہ کچھ نہیں یا پھر لوگ چین کے لوگوں کی دیکھا دیکھی ماسک ہی پہن کر اس وائرس سے خود کو محفوظ کرنے کی سعی میں دکھائی دیتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان احتیاطی تدابیر کے علاوہ کوئی اور تدبیر ہے یا نہیں نیز کورونا وائرس سے بچائو کیلئے مزید کیا احتیاط کی جائے۔ میل جول میں کمی اور ہاتھ ملانے اور دوسرے کو چھونے سے گریز کا طریقہ فی الحال یہاں اپنانے کی ضرورت ہے یا نہیں چونکہ پاکستان میں کورونا وائرس کی ابھی کہیں بھی موجودگی مصدقہ نہیں لیکن ہمارے تئیں پاکستان کے ارد گرد کے ممالک میں اس کی آمد وموجودگی کے باعث یہ امر ضروری نظر آتا ہے کہ اس بارے میں حفاظتی اقدامات اختیار کرنا ضروری ہوگا۔ چین سے واپس آنے والے ایک طالب علم نے ایک ویب سائٹ کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے ایئر پورٹ پر ان کے مطالبے کے باوجود ان کی تسلی بخش چیکنگ نہ کرنے اور محض رسمی فارم بھروانے کا جو انکشاف کیا ہے وہ ان حفاظتی اقدامات کے تقاضوں کی نفی ہے جو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں پولیس اینڈ سروسز ہسپتال میں کسی ممکنہ صورت میں انتظامات کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ایک اخباری اطلاع کے مطابق وہاں پر بھی کوئی معقول انتظام نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صورتحال کی متقاضی اقدامات ہی میں تغافل کامظاہرہ نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ محکمہ صحت کو اس امر کا ادراک ہی نہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کی کیا تیاری کی جائے۔ مالک کائنات سے ملک کو اس وباء سے محفوظ رکھنے کی دلی دعا کیساتھ حکومت سے اس معاملے میں سنجیدگی اختیار کرنے کی گزارش ہے۔ حکومت کو وہ کم سے کم ممکنہ اقدامات ضرور اُٹھانے چاہئیں جو ضرورت اور وقت کا تقاضا ہیں۔
ایس این جی پی ایل کے حکام کا ناقابل برداشت رویہ
پشاور کے شہری علاقہ لکی ڈھیری روڈ گلبہار نمبر چار اور مضافاتی علاقوں میں گیس پائپ لائن سے پانی کا فوارہ پھوٹنے کی وجہ جو بھی ہو اس مسئلے کے حل کیلئے مکینوں کی جانب سے بار بار رجوع پر ایس این جی پی ایل کے متعلقہ حکام کا عوام کی بات سننا تک گوارا نہ کرنے کا رویہ ناقابل برداشت ہے۔ صارفین کے مسائل کا حل اور ان کی سہولتوں کی فراہمی ایس این جی پی ایل کے حکام کی وہ ذمہ داری ہے جس پر ان کو بھاری تنخواہیں اور مراعات مل رہی ہیں۔ اگر وہ صارفین کی بات سننا ہی گوارا نہیں کررہے ہیں تو پھر ان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ لکی ڈھیری روڈ کے صارفین کا مسئلہ اس قدر گمبھیر نہیں کہ اوسط درجے کے اہلکار اس کا مداوا نہ کرسکیں۔ ایس این جی پی ایل کے حکام کو ناقابل برداشت رویہ ترک کرکے جتنا جلد ہوسکے عوام کا مسئلہ اپنا فرض اور ذمہ داری سمجھ کر حل کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم