dr. dost muhammad 1

اقتداری خوشامد اور اس کے برے نتائج

انسان کے نفسی تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس کی تعریف کی جائے اور یہ جذبہ انسان کے اندر اس حد تک ہے کہ بعض اوقات جو کام نہیں کئے ہوتے،اگر کہیں ایسا موقع ہاتھ آتا ہے کہ ناکردہ کام بھی اُس کے نام کیساتھ منسوب ہوسکتے ہیں، تو تعریف کی لالچ میں ایسا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام خاتم النبیینۖ کے دورمبارک میں یہودی اور منافقین کرتے تھے۔ متقی لوگ فلاح وبہبود کیلئے اپنے کئے ہوئے کاموں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں کیونکہ وہ اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کیلئے کئے ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر منافقین میں سے بہت سے لوگ رسول اللہۖ کیساتھ جہاد پر نہیں گئے ۔جب آپۖ واپس تشریف لائے تو جھوٹے عذر پیش کئے اور قسمیں کھائیں اور ساتھ ہی اُن کی یہ خواہش بھی تھی کہ جو کام نہیں کیا اسی پر ان کی تعریف بھی کی جائے۔(یعنی جہاد کے شرکاء میں ان کو شامل کیا جائے) اس پر یہ آیت کریمہ اُتری، ترجمہ: آپۖ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام اُنہوں نے نہیں کئے اُن پر ان کی تعریف کی جائے، ان کے بارے میں آپۖ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے چھوٹ گئے۔ (آل عمران۔ 188) ہمارے اسلاف کا اس حوالے سے جو موقف اور معمول تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام ابو حنیفہ بازار سے گزر رہے تھے۔ایک شخص نے دوسرے سے کہا کہ دیکھو یہ شخص پوری رات نماز پڑھتا ہے یہ سُن کر حضرت امام صاحب پوری رات نماز پڑھنے لگے اور فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ اس عمل پر میری تعریف ہو جو میں نے نہیں کیا۔خلفائے راشدین کے دور تک عالم اسلام میں اقتدار سے وابستہ لوگوں کا یہی حال تھا کہ وہ اپنے آپ کو عوام کے خادم سمجھ عوام کے بھلائی کے کام اللہ کے خوف سے کرتے تھے اور بڑے بڑے کارنامے جیسے ایران وفلسطین کی فتح سرانجام دے کر بھی کسی سے اپنی تعریف سننے کو پسند نہ کرتے تھے اور نہ ہی اس کی اجازت دیتے تھے۔اسلام میں اسی لئے حکمرانی کیلئے نظام خلافت ہے جس میں خلیفہ عوام کو جوابدہ ہوتا ہے اور ایک عام بدو عمرفاروق جیسے دبدبے اور شان والے خلیفہ سے جمعہ کے خطبہ کے دوران اُن کی قمیض کے بارے میں سوال کرسکتا ہے اور پھر شومئی قسمت کہ ایک دن وہ آیا کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوگئی اور اس کیساتھ ہی خوشامد اور چاپلوسیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے عالم اسلام کو آج کے ستاون ٹکڑوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا۔ ان ملکوں میں حکمرانوں کے معاملات دیکھتے جائیے اور اس کسوٹی پر پرکھتے جائیے کہ وہ عوام سے کس کس انداز میں اپنی تعریفیں کرواتے ہیں۔ بادشاہوں کی تو بات ہی نہ کریں کہ وہ تو ہوتے ہی بادشاہ سلامت، عالم پناہ اور ظل الٰہی لیکن تکلیف تب ہوتی ہے کہ اچھے بھلے عوامی اور انقلابی نعروں اور حکومتوں کے دعویدار بھی صبح وشام اپنے مخصوص جتھوں کے ذریعے اپنی تعریف کے ڈونگرے برسوانے کے انتظامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن انجام کار اس کا جو برا حشر ہوتا ہے وہ تاریخ کے صفحات پر نقش ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ سطورلکھنے کی ضرورت اس بات پر پیش آئی کہ پچھلے دنوں جب وطن عزیز میں آٹے چینی وغیرہ کا بحران پیدا ہوا تو وزیراعظم عمران خان نے یوٹیلٹی سٹورز پر عوام کو ریلیف دینے کیلئے بارہ تیرہ ارب کی سبسڈی دیدی۔ اُس میں یوٹیلٹی سٹورز کے افسران نے جو ہاتھ کیا وہ تو اپنی جگہ قابل مذمت اور حکومت کی نااہلی ہے ہی لیکن یہ جو بعض چمچوں کڑچوں نے عمران خان کی تصاویر یوٹیلٹی سٹورز پر آویزاں کیں، تو مجھے عالم اسلام میں خوشامد اور چاپلوسی کی تاریخ یاد آئی۔ عمران خان نے اچھا کیا کہ علم میں آتے ہی ان تصاویر کو فی الفور ہٹانے کا حکم جاری کیا اور وہ ہٹا دیئے گئے لیکن کیا عمران خان اُن لوگوں سے جنہوں نے حکومت کے خرچ پر یہ تصاویر لگائی تھیں کوئی ریکوری کرانے کے احکامات بھی جاری کریں گے؟۔ عمران خان یقیناً اُن لوگوں میں سے نہیں ہیں کہ اُن کاموں کیلئے تعریف کے خواہشمند ہوں جو اُنہوں نے کئے نہیں یا کئے ہیں لیکن حکومت کے خرچ پر بطور وزیراعظم کئے ہیں، تو چاہئے کہ پارلیمان سے قانون پاس ہو کر آئندہ کسی بھی حکومتی خرچے پر کئے گئے کام پر کسی عوامی منتخب نمائندے، صدر، وزیراعظم اور وزیر کی تصویر اور کام کی تختی درج نہیں ہوگی۔ البتہ عالم اسلام اور وطن عزیز کے مشاہر اور بزرگوں اور اسلاف کے نام کو زندہ رکھنے اور آنے والی نسلوں کو بتائے رکھنے کیلئے ان کے ناموں پر مکانات، جامعات، سڑکیں اور شاہراہیں، ایئرپورٹس وغیرہ منسوب کئے جائیں تو اس کے مفید نتائج ہوسکتے ہیں۔ ہاں منتخب نمائندوں میں سے کوئی اپنی جیب سے عوامی فلاح کا کام کر لے تو ضرور اُن کا نام آنا چاہئے کہ یہ اُن کا حق ہے ۔ پچھلی دو تین حکومتوں کے وزرائے اعظم کے ناموں پر جس طرح پورے پاکستان کو بانٹا گیا اور یہاں تک کہ عوامی پیسے غریبوں تک پہنچانے کی سکیموں کے نام بھی یوں رکھے گئے کہ گویا یہ پیسے اُن کے زرخاص سے تقسیم ہورہے ہیںاور ستم ظریفی یہ کہ بیس اکیس گریڈ کے افسران کی بیگمات اور سونے کی چوڑیاں پہننے والیاں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہ رہیں۔ ایک زمانے میں لاہور شہر میں دوبھائیوں کی تصاویر کی زیارت ہر جگہ آنکھ اُٹھا تے ہی ہوجاتی، عمران خان چونکہ اس قبیل ومزاج کے آدمی نہیں ہیں۔ لہٰذااُن کو اس پر کڑی نگاہ رکھنی ہوگی کہ اُن کے بعض چمچے ان کو اس حوالے سے اُن لوگوں کی ڈگرپر نہ چلائیں کہ ایک کام کیا بھی نہ ہو اور تعریف کے متمنیبھی ہوں۔زبیدہ ملکہ نے نہر زبیدہ حکومت کے پیسوں سے بنوائی تھی اس میں اُس کا کوئی کردار نہیں تھا اسلئے خواب میں اُس کو وہ کچھ دکھایا گیا جو حق اور سچ تھا۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر